پاکستان میں صارفین کے حقوق کے تحفظ اور مارکیٹ میں منصفانہ مقابلے کو یقینی بنانے کے لیے قائم کردہ ادارہ، مسابقتی کمیشن آف پاکستان، اپنی تازہ ترین رپورٹ میں نمایاں پیش رفت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔
کمیشن نے گزشتہ مالی سال کے دوران مختلف شعبوں میں فعال بڑی کمپنیوں پر ایک ارب روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے ہیں۔ یہ جرمانے ان کمپنیوں کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی، غیر منصفانہ کاروباری رویے، کارٹل سازی، قیمتوں کے غیر قانونی تعین، اور گمراہ کن مارکیٹنگ جیسے اقدامات پر کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کمیشن نے مالی سال 2024-25 میں کل 12 اہم فیصلے جاری کیے۔ ان میں سے آٹھ فیصلے صرف گمراہ کن اشتہارات اور جھوٹے دعووں سے متعلق تھے، تین فیصلے قیمتوں کے تعین اور کارٹل سازی پر مشتمل تھے، جبکہ ایک فیصلہ عدالت کی ہدایت پر دیا گیا جو کمیشن کے دائرہ کار اور ٹریڈ مارک کے غلط استعمال کے بارے میں تھا۔
کمیشن نے ان فیصلوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کاروباری میدان میں شفافیت، اعتماد اور قانون کی بالا دستی کے لیے پوری طرح فعال ہے۔
مالی سال 2024-25 میں کمیشن نے کھاد، پولٹری، آٹوموبائل، فارماسیوٹیکل، بینکاری، آئی ٹی اور دیگر اہم شعبوں پر خصوصی توجہ دی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوریا کھاد بنانے والی چھ بڑی کمپنیوں اور ان کی نمائندہ تنظیم، فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل، نے باہمی مشاورت سے قیمتوں کا تعین کیا، جو کہ کمیشن کے مطابق قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس بنیاد پر ان کمپنیوں پر فی کس پچاس ملین روپے اور کونسل پر پچھتر ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا، یوں مجموعی جرمانہ تین سو پچہتر ملین روپے تک پہنچا۔
اسی طرح پولٹری سیکٹر میں آٹھ ہیچری کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی جن پر الزام تھا کہ وہ ایک دن کے برائلر چوزوں کی قیمتیں آپس میں مشورے سے طے کرتی ہیں۔ کمیشن کی تحقیقات کے مطابق ان کمپنیوں کی ملی بھگت سے صارفین کو مہنگا گوشت خریدنے پر مجبور ہونا پڑا، اور اس وجہ سے ان پر ایک سو پچپن ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
کمیشن نے مارکیٹنگ اور اشتہاری دعووں کے میدان میں بھی کئی کمپنیوں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ جھوٹے دعووں اور گمراہ کن تشہیر پر کئی اداروں کو نوٹس جاری کیے گئے اور بھاری جرمانے کیے گئے۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کام کرنے والی معروف ہاؤسنگ اسکیم، کنگڈم ویلی، کو اس بنا پر ڈیڑھ سو ملین روپے کا جرمانہ کیا گیا کہ اس نے اپنے منصوبے سے متعلق ایسے اشتہارات شائع کیے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جن کی وجہ سے صارفین کو دھوکہ ہوا۔
اسی نوعیت کی کارروائی معروف کمپنیوں یونی لیور اور فریسلینڈ کیمپینا اینگرو پر بھی کی گئی جنہوں نے اپنی مصنوعات کو گمراہ کن انداز میں مارکیٹ کیا۔ رپورٹ میں خاص طور پر ان کے منجمد دودھ کے حوالے سے کیے گئے دعوؤں کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں کمیشن نے غیر حقیقی اور صارفین کو گمراہ کرنے کے مترادف قرار دیا۔
یہی نہیں، کمیشن نے فارماسیوٹیکل، ٹیلی کام، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور بینکنگ سیکٹر میں بھی چھان بین کا عمل جاری رکھا۔ خاص طور پر سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے ذریعے جھوٹے دعووں کے رجحان کو ختم کرنے کی غرض سے کمیشن نے متعدد آن لائن کمپنیوں اور متاثر کن شخصیات (انفلوئنسرز) کو وارننگز بھی جاری کیں۔
کمیشن کی رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ گزشتہ چند برسوں کی نسبت ادارے نے اپنی کارکردگی کو نہ صرف بہتر بنایا ہے بلکہ فیصلوں کے عمل کو بھی تیز کیا ہے تاکہ قانونی کارروائی میں تاخیر سے متاثر ہونے والے صارفین کو جلد انصاف فراہم کیا جا سکے۔ اس پیش رفت کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اب کاروباری اداروں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے صارفین کا استحصال کریں۔
مسابقتی کمیشن کی طرف سے اٹھائے گئے یہ اقدامات نہ صرف ملک میں کاروباری شفافیت کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ صارفین کے لیے بہتر اور سستا انتخاب ممکن بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔
رپورٹ کے اعداد و شمار اور تفصیلات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں اب ادارے صرف کاغذی کارروائی تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے مارکیٹ میں توازن بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔