افغانستان اور پاکستان کے مابین سفارتی اور سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کابل کے ایک روزہ دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان باہمی روابط کو بہتر بنانے کی ایک اہم کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر افغان نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے اُن کا پرجوش استقبال کیا، جبکہ افغان وزارت داخلہ کے دیگر سینئر افسران بھی وہاں موجود تھے۔
محسن نقوی کے ہمراہ پاکستان کے وفاقی سیکریٹری داخلہ خرم آغا اور دیگر اعلیٰ سطح کے حکام بھی موجود ہیں، جو اس اہم سفارتی رابطے میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
کابل میں قیام کے دوران محسن نقوی کی افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ساتھ خصوصی ملاقات متوقع ہے، جس میں بارڈر سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اقدامات اور دوطرفہ سیکیورٹی تعاون کے امور زیر بحث آئیں گے۔
اس اعلیٰ سطحی دورے سے قبل، 17 جولائی کو پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کے دورے کے دوران پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے مابین ایک سہ فریقی معاہدہ طے پایا تھا، جس کا مقصد نائب آباد سے خرلاچی تک ریلوے لائن کی مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی پر کام کرنا ہے۔
اس منصوبے کو ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے کوریڈور کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے، جس سے خطے میں اقتصادی انضمام کو فروغ حاصل ہوگا اور وسطی ایشیائی ممالک کو افغانستان کے راستے پاکستان کی بندرگاہوں سے جوڑنے میں مدد ملے گی۔
اسحاق ڈار نے کابل میں افغان عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند زادہ سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی سطح پر مستقل روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ساتھ بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ہوئیں، جن میں تجارتی روابط کو وسعت دینے، ٹرانزٹ معاملات کو سہل بنانے اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے پر مشاورت کی گئی۔
ان ملاقاتوں کے دوران نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بارڈر مینجمنٹ اور سیکیورٹی مسائل کے حل پر زور دیتے ہوئے اس بات کی اہمیت اجاگر کی کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پائیدار امن کے لیے مسلسل اور سنجیدہ سطح پر بات چیت ناگزیر ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق سراج الدین حقانی کے ساتھ ان کی بات چیت نہایت تفصیل سے ہوئی، جس میں خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔