سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ایک نوعمر طالب علم فرحان ایاز کو مبینہ طور پر مدرسے میں تشدد کا نشانہ بنا کر جان سے مار دیا گیا۔ یہ واقعہ 21 جولائی کو اس وقت پیش آیا جب فرحان، جو صرف 13 سال کا تھا، مدرسے کے اندر جسمانی اور نفسیاتی اذیت برداشت کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ مدرسہ غیر رجسٹرڈ تھا، جہاں سے بعد میں پولیس نے زنجیریں اور لاٹھیاں بھی برآمد کیں۔
فرحان کے والد محمد ایاز، جو کہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں، نے بیٹے کی موت کی خبر ملنے پر فوری طور پر وطن واپسی کی۔ وطن آ کر جب انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی تو دل دہلا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ ان کے مطابق واقعے سے کچھ گھنٹے قبل ان کی اپنے بیٹے سے واٹس ایپ ویڈیو کال پر گفتگو ہوئی تھی۔
فرحان نے اس کال میں نہایت گھبراہٹ کے عالم میں کہا: "ابو، میں اس مدرسے میں مزید نہیں پڑھ سکتا۔ اگر میں واپس گیا تو شاید واپس نہ آ سکوں۔ کسی اور جگہ داخلہ کروا دیں۔”
اس انکار پر محمد ایاز کا چھوٹا بھائی فرحان کو ساتھ لے کر مدرسے گیا تاکہ صورت حال واضح ہو سکے۔ وہاں مدرسے کے ناظم سے ملاقات ہوئی جنہوں نے تسلی دی کہ بچے کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی اور وہ ان کے اپنے بچوں کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ محمد ایاز کی خود ناظم سے واٹس ایپ پر گفتگو ہوئی، جس میں انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کے بیٹے کو کوئی خطرہ لاحق نہیں اور وہ بالکل محفوظ ہے۔
واٹس ایپ کال کے صرف چند گھنٹوں بعد ہی فرحان پر مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، جس سے اس کی حالت غیر ہو گئی۔ اسے تشویشناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ فرحان کے والد کا کہنا تھا: "میں یہ سمجھتا رہا کہ میرا بیٹا ایک محفوظ تعلیمی ماحول میں ہے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میں اپنے لختِ جگر کو درندوں کے سپرد کر رہا ہوں۔”
محمد ایاز کے مطابق ان کا بیٹا شروع میں تعلیم کے لیے بہت پرجوش تھا، مگر آہستہ آہستہ اس کے اندر مدرسے سے خوف اور ناپسندیدگی پیدا ہو گئی۔ وہ کہتا تھا کہ مدرسے میں کچھ ایسا ہو رہا ہے جس سے وہ ڈرا ہوا ہے، لیکن خاندان والوں نے اس کی بات کو سنجیدہ نہ لیا۔ "کاش میں اس کی فریاد سن لیتا،” انہوں نے نم آنکھوں سے کہا۔
فرحان کے قتل کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 11 ملزمان کو گرفتار کیا ہے جنہیں عدالت میں پیش کر کے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر حاصل کیا گیا ہے۔ تاہم مدرسے کا مہتمم اور ایک اور اہم ملزم تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ان دونوں ملزمان کی گرفتاری کے لیے الگ ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
دوسری طرف علاقے کے مکینوں نے انصاف کے لیے آواز بلند کی ہے اور مرکزی ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر گرفتاری عمل میں نہ آئی تو شہریوں نے احتجاجی دھرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس ضمن میں پولیس اور انتظامیہ نے لواحقین سے مذاکرات کیے اور یقین دہانی کرائی کہ کوئی بھی ذمہ دار شخص قانون سے بچ نہیں پائے گا۔
واقعے کی تفتیش کے دوران یہ بھی سامنے آیا ہے کہ متعلقہ مدرسہ نہ صرف غیر قانونی طور پر چل رہا تھا بلکہ اس میں بچوں پر جسمانی تشدد کے اوزار بھی پائے گئے ہیں، جن میں زنجیریں اور لاٹھیاں شامل ہیں۔ ان شواہد کی بنیاد پر مدرسے کو فوری طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔
یہ سانحہ صرف ایک بچے کے قتل کی داستان نہیں بلکہ ملک بھر میں مدرسوں کی نگرانی اور نظام تعلیم کے ناقص انتظامات پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ والدین، شہری تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے اب یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام مدارس کو باقاعدہ رجسٹریشن اور نگرانی کے دائرے میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی اور فرحان ایاز درندگی کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔