سندھ میں کاروکاری کے نام پر قتل کی خونی روایت رواں سال 2025 میں بھی تھم نہ سکی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے 15 جولائی تک 110 افراد کو کاروکاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا، جن میں 82 خواتین اور 28 مرد شامل ہیں۔ اس لرزہ خیز سلسلے میں لاڑکانہ رینج بدستور سرفہرست ہے جہاں صرف اسی رینج میں 48 افراد کو قتل کیا گیا۔ جن میں 35 خواتین شامل ہیں۔
سکھر رینج میں 28 افراد کو نشانہ بنایا گیا، جن میں 20 خواتین شامل تھیں۔ شہید بے نظیرآباد میں بھی کاروکاری کے نام پر 17 جانیں ضائع ہوئیں، جن میں 15 خواتین شامل ہیں۔ میرپور خاص رینج میں 2 خواتین، حیدرآباد رینج میں 12 افراد (جن میں 8 خواتین) اور کراچی میں 3 افراد (2 خواتین سمیت) کو بھی اس ظالمانہ رسم کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف معاشرے میں عورتوں کے خلاف شدت پسندی کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ رواں برس صرف پہلے سات ماہ میں یہ اعداد پچھلے سالوں کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کر رہے ہیں، جب کہ 15 جولائی 2024 تک 80 افراد (65 خواتین سمیت) کاروکاری کے الزام میں قتل کیے جا چکے تھے۔
خواتین کے تحفظ اور معاشرتی انصاف کے دعوؤں کے باوجود کاروکاری جیسی قبائلی رسوم جدید سندھ کے چہرے پر ایک سیاہ دھبہ بنی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ اس وحشیانہ رواج کے خاتمے کے لیے سخت قانون سازی اور مؤثر نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔