اسلام آباد:حکومت نے شوگر انڈسٹری کو مرحلہ وار ڈی ریگولیٹ کرنے کا بڑا اور بنیادی فیصلہ کرلیا ہے، جس سے چینی کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم ہو جائے گا، اور مارکیٹ کی باگ ڈور نجی شعبے کے ہاتھ میں دے دی جائے گی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چینی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن، قیمتوں میں تیزی سے اضافے، اور کارٹیلائزیشن کے الزامات پر معاشی محاذ پہلے ہی گرم ہے۔
ذرائع کے مطابق، ڈی ریگولیشن سے متعلق تجاویز کا مسودہ مکمل ہو چکا ہے اور آئندہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس نئی پالیسی کے تحت حکومت صرف 5 لاکھ ٹن چینی کا بفر اسٹاک رکھے گی، جو بمشکل ایک ماہ کی کھپت کے لیے کافی ہوگا، جب کہ باقی تمام ذخیرہ، قیمتیں، اور فروخت مکمل طور پر نجی شعبے کے رحم و کرم پر ہوں گی۔
نئی پالیسی کے مطابق حکومت قیمتوں میں مداخلت نہیں کرے گی، البتہ اگر قیمتیں قابو سے باہر نکلیں تو سبسڈی دے کر عارضی ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے جہاں آزاد مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے، وہیں کارٹیلائزیشن کو مزید تقویت ملنے کا خدشہ بھی موجود ہے، خصوصاً اس وقت جب شوگر ملز کے مالکان میں سیاسی وابستگیاں شامل ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ڈی ریگولیشن سے گنے کے کاشتکار کو بہتر نرخ ملیں گے اور شوگر ملز کی پیداواری صلاحیت 70 فیصد تک پہنچے گی۔ اس اقدام سے سالانہ 2.5 ملین ٹن اضافی چینی پیدا ہونے کی توقع ہے، جس کی برآمد سے 1.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ پالیسی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند ماہ قبل وزیراعظم نے چینی مافیا کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا تھا، ایف بی آر نے ٹریک اینڈ ٹریس اور مانیٹرنگ سسٹم سے اربوں کا ٹیکس حاصل کیا، مگر اب حکومت خود مارکیٹ سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو حکومت کی نگرانی کس حد تک مؤثر رہ پائے گی؟