اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن ساتھ ہی مہنگائی کے دوبارہ بڑھنے کا سخت خدشہ بھی ظاہر کر دیا گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مہنگائی کی موجودہ صورت حال، توانائی کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے اور عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق اپریل 2025 میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 0.3 فیصد تک آ گئی تھی، لیکن حالیہ دو مہینوں میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جون 2025 تک یہ شرح 7.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے خبردار کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، تاہم کچھ مہینوں میں یہ 7 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے، خصوصاً اگر توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا۔
گورنر نے کہا کہ قیمتوں میں موجودہ استحکام وقتی ہو سکتا ہے اور توانائی کی لاگت مستقبل میں مہنگائی کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرح سود میں کمی کے بجائے اسے برقرار رکھا گیا ہے تاکہ معیشت کو ممکنہ جھٹکوں سے بچایا جا سکے۔
معاشی اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے گورنر نے بتایا کہ مالی سال 2025 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 2.7 فیصد رہی، جو بہت کم ہے، جبکہ زرعی شعبہ محض 0.6 فیصد کی رفتار سے ترقی کر سکا۔ برآمدات میں بھی صرف 4 فیصد اضافہ ہوا جو ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ناکافی ہے۔ تاہم زرمبادلہ کے ذخائر میں 8 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس سے پاکستان کے ذخائر 38.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
درآمدات میں بھی 11 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد کی تیزی دیکھی گئی، جسے معاشی سرگرمیوں کی بہتری کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے وضاحت کی کہ شرح سود برقرار رکھنے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ پروگرام اور روپے کی قدر میں استحکام ہے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ مستقبل کی مالیاتی پالیسی بھی انہی عوامل اور مہنگائی کے رجحانات کو مدنظر رکھ کر مرتب کی جائے گی۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شرح سود مستحکم ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو چکا ہے، تو پھر مہنگائی کا بوجھ عام پاکستانی پر کیوں برقرار ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آنے والے دنوں میں پالیسی سازوں کو جواب دینا پڑے گا۔