پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ متعدد اعلیٰ سطحی سیاسی شخصیات اور اراکینِ پارلیمنٹ کے لیے ایک بڑا قانونی دھچکا سامنے آیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجموعی طور پر نو (9) اراکینِ پارلیمنٹ کو عوامی عہدوں کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان میں سے بعض پر نہ صرف سنگین نوعیت کے مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں بلکہ ان کے خلاف عدالتوں کے فیصلوں کے بعد انہیں پارلیمانی حیثیت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
نااہلی کے اس فیصلے کی بنیاد انسداد دہشت گردی عدالت فیصل آباد کی وہ عدالتی کارروائی بنی، جس کے تحت 9 مئی کے واقعات سے متعلق تین علیحدہ مقدمات میں سنجیدہ نوعیت کے فیصلے سنائے گئے۔ 31 جولائی کو سنائے گئے ان عدالتی فیصلوں میں مجموعی طور پر 196 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائیں سنائی گئیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما بھی شامل تھے۔ عدالت نے دو الگ مقدمات میں 168 ملزمان کو دس، دس سال قید کی سزائیں سنائیں، جن میں سابق وفاقی وزیر اور موجودہ ایم این اے عمر ایوب خان اور سینیٹر شبلی فراز بھی شامل تھے۔
اسی تناظر میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ سناتے ہوئے شبلی فراز، عمر ایوب اور دیگر متعلقہ اراکین کو ان کے عہدوں سے ڈی نوٹیفائی کر دیا ہے۔ ان تمام اراکین کو اس بنا پر نااہل قرار دیا گیا کہ وہ 9 مئی کے فسادات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات میں سزا یافتہ ہو چکے ہیں۔
نااہلی کے شکار افراد میں قومی اسمبلی کے پانچ اراکین، پنجاب اسمبلی کے تین اراکین اور ایک سینیٹر شامل ہیں۔ جن اراکین قومی اسمبلی کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا، ان میں رائے حیدر علی، زرتاج گل، رائے حسن نواز اور صاحبزادہ حامد رضا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی کے رکن انصر اقبال، جنید افضل ساہی، اور رائے محمد مرتضیٰ اقبال کو بھی الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کر دیا ہے۔
خصوصی عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق شبلی فراز، عمر ایوب، زرتاج گل اور صاحبزادہ حامد رضا کو 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں، جبکہ جنید افضل ساہی کو 3 سال کی سزا دی گئی ہے۔ یہ سزائیں ان پر 9 مئی 2023 کے پرتشدد مظاہروں، ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائیوں کے الزامات کی بنیاد پر سنائی گئیں۔
الیکشن کمیشن نے مذکورہ فیصلے کے بعد ان تمام نااہل قرار دیے گئے اراکین کی نشستیں خالی قرار دے دی ہیں، اور یوں اب ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد متوقع ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل میں دیگر سیاسی شخصیات کے لیے بھی ایک نظیر بن سکتا ہے، اور عوامی نمائندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
