پاکستان اور چین نے اگلے ماہ ایک بڑی کاروباری کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور صنعتی روابط کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ اس کانفرنس کی میزبانی چین کے شہر میں 4 ستمبر کو کی جائے گی، جہاں پاکستان کی 250 سے زائد اور چین کی 200 سے زائد کمپنیاں شرکت کریں گی۔
یہ فورم نہ صرف سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرے گا بلکہ صنعتی شعبہ جات میں تعاون کے نئے دروازے بھی کھولے گا، بالخصوص برقی گاڑیوں (EVs)، شمسی توانائی، زراعت اور کیمیکل کی صنعت میں۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات، احسن اقبال چوہدری نے بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ "ہمیں چین کی جدید ٹیکنالوجی سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ برقی گاڑیاں پاکستان اور چین کے درمیان آئندہ صنعتی اشتراک میں ایک اہم کردار ادا کریں گی۔
احسن اقبال نے بتایا کہ چین کی جانب سے تیار کردہ نئی نسل کی بیٹریز، خصوصاً سوڈیم آئن بیٹریز، روایتی لیتھیئم بیٹریز کے مقابلے میں کئی فوائد رکھتی ہیں، اور پاکستان اس جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر توانائی کے شعبے میں انقلاب لاسکتا ہے۔
وزیر موصوف نے مزید کہا کہ پاکستان کی حالیہ قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی 2025-2030 کے تحت یہ ہدف رکھا گیا ہے کہ 2030 تک ملک میں فروخت ہونے والی 30 فیصد نئی گاڑیاں برقی ہوں گی، اور 2060 تک نقل و حمل کے نظام کو مکمل طور پر ماحول دوست اور صفر کاربن بنانے کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس پالیسی کے تحت مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مختلف ترغیبات فراہم کی گئی ہیں، جیسے کہ ٹیکس میں چھوٹ، سبسڈی، چارجنگ انفراسٹرکچر کی سہولیات اور مقامی مینوفیکچرنگ پر زور۔
احسن اقبال نے کہا: "چینی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں برقی گاڑیاں تیار کرنا نہ صرف لاگت میں فائدہ مند ہے بلکہ اس سے پاکستان کو ایندھن کی درآمد پر انحصار کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ قدم توانائی کی بچت، روزگار کے مواقع، اور پائیدار ترقی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔”
اس وقت بھی چین کی مشہور کمپنیز، جیسے کہ BYD اور Chery، پاکستان میں برقی گاڑیوں کے شعبے میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ کمپنیاں گاڑیوں کی اسمبلنگ، چارجنگ اسٹیشنز کی تعمیر، اور مختلف شراکت داریوں کے ذریعے پاکستان کو خطے میں ایک اہم EV مینوفیکچرنگ مرکز بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان معاشی شراکت داری کا مضبوط ستون ’چائنا-پاکستان اکنامک کوریڈور‘ (CPEC) ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم حصہ ہے۔ 2015 میں شروع ہونے والے اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی، سڑکوں اور گوادر بندرگاہ جیسے بڑے انفراسٹرکچر پراجیکٹس پر کام کیا گیا۔
اب جب کہ سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، دوسرا مرحلہ صنعتی تعاون، زراعت کی جدید کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
اگلے ماہ منعقد ہونے والی پاکستان-چین بزنس کانفرنس اسی وسیع تر منصوبے کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعے پاکستان میں سبز ٹیکنالوجی اور جدید صنعتی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے گا۔
