گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران پاکستان میں ہونے والی شدید بارشوں اور مہلک سیلابوں نے نہ صرف انسانی جانوں کا زیاں کیا بلکہ ملک کے انفراسٹرکچر، گھریلو املاک اور مقامی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اب ایک نئی بین الاقوامی تحقیق سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ ان بارشوں کی شدت اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا تعلق براہ راست عالمی درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ سے جڑا ہوا ہے۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات کے اسباب و اثرات پر کام کرنے والے ماہرین کے ایک گروپ "ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن” (WWA) نے پاکستان کی حالیہ صورتحال کا گہرائی سے تجزیہ کیا ہے اور اس تحقیق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی یہ بارشیں معمول سے کہیں زیادہ تھیں، اور ان کی شدت نے تباہی کو ناقابلِ تصور حد تک بڑھا دیا۔
تحقیق کے مطابق 24 جون سے 23 جولائی کے درمیان جنوبی ایشیا کے متعدد خطوں میں، خصوصاً پاکستان میں، معمول سے 10 سے 15 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔ یہی بارشیں شہری و دیہی علاقوں میں شدید سیلاب کی صورت میں ظاہر ہوئیں جن کے نتیجے میں مکانات زمین بوس ہو گئے، پل اور سڑکیں تباہ ہوئیں، اور کئی خاندانوں کو بے گھر ہونا پڑا۔
پاکستان کی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 26 جون سے شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے نے ملک بھر میں کم از کم تین سو انسانی جانیں نگل لیں، جبکہ ہزاروں خاندانوں کی رہائش گاہیں منہدم ہو گئیں یا ناقابلِ رہائش بن گئیں۔
ان متاثرین میں گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ کے رہائشی ثاقب حسن بھی شامل ہیں، جنہوں نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اچانک آنے والے سیلاب نے ان کے اور ان کے خاندان کے اٹھارہ افراد کے گھروں کو بہا دیا۔ ثاقب حسن نے بتایا کہ صرف ان کے خاندان کو دس کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، کیونکہ نہ صرف مکانات بہہ گئے بلکہ ان کے ڈیری فارمز بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جن میں موجود درجنوں مویشی پانی کی لہروں کی نذر ہو گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ مقامی طور پر لوگوں کو خبردار کرنے کا واحد ذریعہ مسجد کا لاؤڈ اسپیکر تھا، جہاں سے کچھ دیر پہلے اعلان کیا گیا کہ تمام لوگ فوری طور پر محفوظ مقامات کی طرف نکل جائیں، مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ثاقب نے کہا کہ اب وہ اور ان کے دیگر رشتہ دار بے گھر ہو چکے ہیں اور حکومت کی طرف سے صرف سات خیمے اور پچاس ہزار روپے کا راشن دیا گیا ہے جس میں وہ گزشتہ دو ہفتے سے گزر بسر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ امداد ناکافی ہے اور متاثرہ علاقوں میں سہولیات کی شدید کمی ہے، جبکہ موسمیاتی شدت کے اثرات بدستور جاری ہیں۔
اسی تحقیق کے مطابق بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت نے بارشوں کی شدت کو ماہرین کی پیش گوئیوں سے بھی آگے بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم موسمیاتی سائنسدان جیکب سٹینز، جو اگرچہ اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے لیکن اس شعبے میں سرگرم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں حالیہ موسم گرما کے دوران جو کچھ ہوا وہ ایک طرح سے حیران کن تھا۔ ان کے مطابق ایسی شدت کی بارشیں اور ان کے نتیجے میں تباہی کئی دہائیوں بعد دیکھنے میں آئی ہے اور یہ اس بات کی گواہی ہے کہ گلوبل وارمنگ نے موسموں کا توازن بری طرح متاثر کیا ہے۔
آسٹریا کی گریز یونیورسٹی سے وابستہ ماہر ارضیات سٹیز نے تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ بھی پیش کیا کہ جن ماحولیاتی واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی توقع سائنسدانوں نے 2050 کے آس پاس لگائی تھی، وہ اب 2025 میں ہی سامنے آنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے نے زمین کے قدرتی نظم کو بگاڑ دیا ہے اور موسم کی شدت اب معمول بنتی جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا کے کئی خطے جن میں ہمالیائی خطہ شامل ہے، شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں منجمد جھیلوں کے پگھلنے اور ان سے خارج ہونے والے پانی کے سبب بھاری بہاؤ پیدا ہو رہا ہے جو نیچے وادیوں میں تباہی مچا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں جولائی کے مہینے میں ایک پل جو نیپال اور چین کو ملاتا تھا، پانی کے زور دار بہاؤ سے تباہ ہو گیا جبکہ شمالی بھارت میں ایک دیہی علاقہ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر مکمل صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ وہاں درجنوں افراد ملبے تلے دب گئے اور کئی تاحال لاپتہ ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ یعنی بادلوں کے اچانک پھٹنے جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چلاس کے علاقے میں حالیہ دنوں میں ہونے والا کلاؤڈ برسٹ شدید سیلاب کا باعث بنا جس نے وہاں کی مقامی آبادی کو بھی متاثر کیا۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گرم ماحول میں نمی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور یہی اضافی نمی بارشوں کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ جب فضا میں نمی کی مقدار غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے تو بارش کا حجم معمول سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اب نہ صرف بارشوں کی مقدار بڑھی ہے بلکہ ان کے اثرات بھی کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ، مریم زکریا، جو کہ امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمنٹل پالیسی سے منسلک ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں دس ڈگری کا بھی اضافہ ہو جائے تو یہ بارشوں کے امکانات کو کئی گنا بڑھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کی فوری دلیل ہے کہ ہمیں اب مزید وقت ضائع کیے بغیر فوسل ایندھن پر انحصار ختم کر کے قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا نے فوری اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں بارشیں اور سیلاب مزید مہلک ہو سکتے ہیں اور جنوبی ایشیا جیسے گنجان آباد خطے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
تحقیق کے مطابق، بارشوں کے ان واقعات نے جنوبی ایشیائی ممالک، خاص طور پر پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ خطہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے قرب و جوار میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زیادہ شدت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بارشوں، پگھلتی برفانی جھیلوں، زمین کھسکنے اور ندی نالوں میں طغیانی جیسے مسائل اب معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں۔
یہ سب علامات دنیا کے اس انتباہ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو قابو نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں انسانی زندگی اور معیشت دونوں شدید خطرات کی زد میں ہوں گے۔
یہ تحقیق ایک اہم یاد دہانی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب کوئی مستقبل کی بات نہیں رہی بلکہ حال میں ہمارے اردگرد موجود ہے، اور اگر دنیا نے فوری، پائیدار اور اجتماعی اقدامات نہ کیے تو تباہی کا یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جو پہلے ہی قدرتی آفات کے مقابلے میں کمزور ہیں، ان کے لیے یہ صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، اور وقت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف ان اثرات کو روکنے کے لیے منصوبہ بندی کریں بلکہ ان کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے کے لیے جدید سائنسی، انتظامی اور معاشی حکمتِ عملی اپنائیں۔
