اپر چترال کے ایک پسماندہ اور دور افتادہ علاقے "پرواک” سے تعلق رکھنے والی باہمت لڑکی طیبہ رحمت نے نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ پورے ضلع کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بطور خاتون کرکٹر اپنے قدم جمایے۔ یہ اعزاز اس وقت ان کے نام ہوا جب انہیں دبئی میں ہونے والے جی ای گیمز 2025 کے لیے پاکستان انڈر 19 ویمنز کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہ کارنامہ محض ایک ذاتی کامیابی نہیں بلکہ پورے علاقے کی خواتین کے لیے ایک نئی راہ کھولنے والا سنگ میل ہے۔
متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اس بین الاقوامی ایونٹ میں پاکستان کی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل میچ میں روایتی حریف بھارت کو شکست دی اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ ٹیم میں ملک بھر سے باصلاحیت لڑکیوں کو منتخب کیا گیا جن میں لاہور، کراچی، گلگت بلتستان اور دیگر شہروں کی کھلاڑی شامل تھیں۔ تاہم طیبہ رحمت اس ٹیم کی وہ کھلاڑی تھیں جنہوں نے انتہائی محدود وسائل اور مواقع کے باوجود اپنی محنت اور عزم سے یہ مقام حاصل کیا۔
طیبہ کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں بچیوں کے لیے کھیلنے کے نہ میدان ہیں، نہ سہولیات، اور نہ ہی کھیلوں کے لیے مثبت ماحول۔ اسکول میں کھیلوں کی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث انہیں مواقع بھی نہیں ملے۔ لیکن ان کے دل میں کرکٹ سے محبت بچپن سے تھی۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک نجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طیبہ صرف کرکٹ کی ہی نہیں بلکہ آئس ہاکی کی بھی ایک ماہر کھلاڑی ہیں، اور وہ چترال اور گلگت بلتستان میں ہونے والے آئس ہاکی ٹورنامنٹس میں کئی بار حصہ لے چکی ہیں۔ ان کے مطابق کرکٹ کے ایک ٹرائل کے دوران ان کی کارکردگی کو سراہا گیا اور وہ قومی ٹیم میں منتخب ہوئیں۔
دبئی میں کھیلے گئے میچز میں طیبہ نے پانچ مقابلوں میں حصہ لیا، جہاں پاکستان نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ بطور بلے باز کھیلنے والی طیبہ نے بتایا کہ ان کے پسندیدہ کھلاڑی بابر اعظم ہیں، جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور ان کے بیٹنگ اسٹائل سے متاثر ہو کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنایا۔
طیبہ کا کہنا ہے کہ اپر چترال جیسے علاقے میں بھی لڑکیوں میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ یہاں کی بیٹیاں آل راؤنڈر صلاحیتوں کی مالک ہیں، لیکن سہولیات کی کمی اور سماجی پابندیوں کے باعث اکثر لڑکیاں اپنے خواب ادھورے چھوڑ دیتی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر حکومت اور مقامی ادارے اس سمت میں تعاون کریں تو مزید کئی طیبہ رحمت اس علاقے سے نکل کر دنیا کے سامنے آ سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی کامیابی صرف ان کی ذاتی محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کے خاندان کی حمایت نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ اگر ان کے والدین ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید وہ بھی آج باقی بچیوں کی طرح خاموشی سے خواب دفن کر چکی ہوتیں۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ جس طرح بیٹوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے، بیٹیوں کو بھی اسی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔
دبئی میں پاکستان کی جیت کے بعد جب طیبہ رحمت واپس اپنے گاؤں لوٹیں تو وہاں ان کے استقبال کا منظر دیدنی تھا۔ مرد، خواتین، بچے سب پھولوں کے ہار لیے ان کی راہ تک رہے تھے۔ گاؤں میں خوشی کا سماں تھا اور ہر شخص فخر محسوس کر رہا تھا کہ ان کی بیٹی نے بین الاقوامی سطح پر علاقے کا نام روشن کیا۔ طیبہ نے اس موقع پر کہا، "میرے گاؤں کے لوگوں نے جس محبت سے میرا استقبال کیا، وہ میری کامیابی سے کہیں بڑی خوشی تھی۔ میری یہ جیت صرف میری نہیں، پورے گاؤں کی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "اب وقت آ چکا ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو بھی خواب دیکھنے کی اجازت دیں، کیونکہ اب خواتین کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں۔” ان کا خواب ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی قومی ویمنز کرکٹ ٹیم کا مستقل حصہ بنیں اور ان نوجوان لڑکیوں کے لیے مثال قائم کریں جو آج بھی کسی پہاڑی گاؤں میں کرکٹ کے بیٹ کے بجائے صرف خواب اٹھائے بیٹھی ہیں۔
