لاہور کے ایک پُراسرار چوری کے کیس نے پولیس کی مہارت اور صبر کا کڑا امتحان لے لیا۔ تھانہ ساندہ کی حدود میں رہنے والی ایک بیوہ خاتون کی رہائش گاہ سے دس تولے سونا، جس کی قیمت تقریباً تیس لاکھ روپے تھی، چپکے سے غائب ہو گیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ نہ تو گھر کا کوئی تالہ توڑا گیا، نہ ہی کھڑکی یا دروازے پر زبردستی داخلے کے آثار ملے۔ متاثرہ خاتون کو بھی کسی شخص پر ذرا برابر شک نہ تھا۔ اس پیچیدہ صورتحال نے تفتیش کاروں کو گویا ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا جہاں سے واپسی ناممکن نظر آتی تھی۔
یہ گھر بیک وقت ایک نجی ٹیوشن سینٹر کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا، جہاں دو خواتین اساتذہ بچوں کو پڑھاتی تھیں۔ چوری اُس وقت ہوئی جب بیوہ خاتون اور ان کے بچے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ چونکہ اساتذہ عموماً صرف اس وقت آتی تھیں جب گھر والے موجود ہوتے، اس لیے ابتدائی تفتیش میں ان پر کسی قسم کا شک ظاہر نہیں کیا گیا۔ معاملہ مزید مشکل اس لیے ہو گیا کہ اردگرد کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نصب نہ تھا جو واقعے کے وقت کی کوئی جھلک دکھا سکتا۔
انچارج انویسٹی گیشن حسن زاہد کے مطابق، یہ واردات مئی کے مہینے میں پیش آئی تھی، اور کئی دنوں تک کسی قسم کا سراغ ہاتھ نہ آیا۔ پولیس نے روایتی طریقے سے ہر زاویے پر غور کیا، مگر سب بیکار ثابت ہوا۔ پھر ایک نکتہ سامنے آیا جس نے تفتیش کی سمت ہی بدل دی۔ جولائی میں ان میں سے ایک استانی، مہوش (فرضی نام)، اچانک نوکری چھوڑ کر اپنے آبائی شہر پاکپتن چلی گئی۔ بظاہر یہ ایک عام سی بات تھی، مگر حسن زاہد کے ذہن میں سوال اٹھا کہ یہ روانگی شاید کسی منصوبے کا حصہ ہو۔
اسی شک کی بنیاد پر پولیس نے دوبارہ اردگرد کے گھروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو اس نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ حیرت انگیز طور پر ایک فوٹیج میں مہوش انہی دنوں میں اُس گلی کے قریب آتی جاتی نظر آئی۔ یہ اشارہ پولیس کے لیے کافی تھا۔ تفتیشی ٹیم نے فوراً مہوش کی چھان بین شروع کی اور اس کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کر لیا۔ ایس پی انویسٹی گیشن اقبال ٹاؤن سدرہ خان کے مطابق، ڈیٹا سے پتا چلا کہ واردات کے دنوں میں مہوش تین مختلف نمبروں سے مسلسل رابطے میں تھی، اور ان سب نمبروں کی لوکیشن پاکپتن آ رہی تھی۔
اس انکشاف کے بعد پولیس نے مہوش کو شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی طور پر اس نے ہر الزام سے انکار کیا، مگر جب سی سی ٹی وی فوٹیج، موبائل ڈیٹا اور اس دن کی لوکیشن کے ثبوت سامنے رکھے گئے تو وہ ٹوٹ گئی اور سارا منصوبہ اگل دیا۔ اس کے مطابق، وہ تقریباً ایک سال سے اس گھر میں پڑھا رہی تھی اور گھر کے ماحول اور معمولات سے اچھی طرح واقف تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے گھر کی چابیوں کی پیمائش کر کے ان کی ڈپلیکیٹ چابیاں بنوا لیں۔ پھر اس نے دو قریبی دوستوں کو بھی اس منصوبے میں شریک کر لیا۔
منصوبہ نہایت چالاکی سے تیار کیا گیا تھا۔ مہوش جانتی تھی کہ زیورات کہاں رکھے جاتے ہیں اور کب گھر والے طویل دورے پر جائیں گے۔ جب یہ موقع آیا، تینوں نے ڈپلیکیٹ چابیوں سے گھر کھولا، سارا سونا نکالا اور خاموشی سے نکل گئیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ واردات کے بعد مہوش نے مزید ڈیڑھ مہینہ وہیں پڑھانا جاری رکھا تاکہ کسی کو شک نہ ہو، اور پھر اچانک نوکری چھوڑ دی۔
پولیس نے مہوش اور اس کی دونوں ساتھیوں کو پاکپتن میں چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔ عدالت سے ان کا ریمانڈ حاصل کیا گیا اور اب وہ جیل میں ہیں۔ تفتیشی افسران کے مطابق، گھر والوں کو مہوش پر سب سے کم شک تھا کیونکہ وہ بچوں کے ساتھ خاصی قریبی تعلق رکھتی تھی۔ اس قریبی تعلق کو ہی اس نے اپنے جرم کی سب سے بڑی ڈھال بنایا۔