کراچی کے ایک بوسیدہ، پرانے مکان کے ایک مختصر سے کمرے میں گزشتہ سترہ برسوں سے ایک ایسی غیر ملکی خاتون مقیم ہیں، جن کی زندگی نہ تو مکمل قید کہی جا سکتی ہے اور نہ ہی آزاد۔ یہ خاتون رسینا شریف ہیں، جن کی عمر اب 57 برس ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس امید میں گزار دیا کہ شاید ایک دن اپنے وطن سری لنکا واپس جا سکیں گی۔ وہ کبھی کسی تنازع کا حصہ نہیں رہیں، نہ کسی کو نقصان پہنچایا، مگر قسمت نے انہیں ایک ایسے حالات کے بھنور میں دھکیل دیا جس سے نکلنا اب ان کے لیے تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب وہ کویت میں بطور ٹیلی فون آپریٹر کام کر رہی تھیں اور وہاں ان کی ملاقات ایک پاکستانی شہری جاوید اقبال سے ہوئی۔ تعلق بڑھا، محبت نے جنم لیا اور بالآخر شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب بھی رہیں اور تقریباً دس سال کا وقت وہاں گزرا۔ تاہم جب شوہر کی صحت خراب ہوئی اور وہ پاکستان آنے پر بضد ہوئے، تو رسینا نے ان کے منع کرنے کے باوجود ساتھ سفر اختیار کیا۔
پاکستان آنے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت رسینا کا ویزا صرف تین ماہ کا تھا، جو بعد میں زائد المیعاد ہو گیا۔ انہیں نہ تو قانونی تقاضوں کی پوری آگاہی تھی، نہ ہی مالی وسائل تھے کہ جرمانہ ادا کر سکیں۔ رفتہ رفتہ ان پر "اوور سٹے” یعنی مدتِ قیام ختم ہونے کے بعد ملک میں رہنے کے جرم میں 15 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد ہو گیا۔ یہ جرمانہ ہی آج ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے — وہ نہ پاکستان سے باہر جا سکتی ہیں، نہ ہی اپنے وطن لوٹ سکتی ہیں۔
رسینا شریف آج ایک دل کی مریضہ ہیں۔ ان کے دل کے تین والوز بند ہیں اور دو مرتبہ اوپن ہارٹ سرجری بھی ہو چکی ہے۔ معمولی اخراجات کے لیے وہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ سے صرف چھ ہزار روپے ماہانہ حاصل کرتی ہیں، جو بمشکل کھانے پینے اور ادویات پر خرچ ہوتے ہیں۔ ایک پاکستانی شہری محمد انیس نے ان کی بے سہارگی دیکھ کر اپنے چھوٹے سے گھر کا ایک کمرہ انہیں رہائش کے لیے دے دیا ہے، جہاں وہ انیس کے اہلِ خانہ کے ساتھ رہتی ہیں۔
انیس کے مطابق، وہ کئی فلاحی اداروں اور سرکاری دفاتر کے دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں، مگر اب تک رسینا کی وطن واپسی کا کوئی انتظام نہ ہو سکا۔ رسینا کے تینوں بچے کولمبو میں رہتے ہیں، جو فون پر اپنی ماں کی بگڑتی صحت اور تنہائی پر پریشان رہتے ہیں۔ خود رسینا بھی اپنی زندگی کے باقی دن اپنے وطن، اپنے لوگوں اور اپنی زمین پر گزارنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: "یہاں کا ہر دن میرے لیے ایک بوجھ ہے، بس چاہتی ہوں کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات اپنے ملک میں گزاروں۔”
پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک سینیئر افسر کے مطابق، ویزا ختم ہونے کے بعد ملک میں قیام امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی ہے، اور اس پر جرمانہ، حراست یا ملک بدری جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ امیگریشن ایکٹ کے تحت حکام کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے غیر ملکیوں کو حراست میں لے کر ڈیپورٹ کریں اور بعض صورتوں میں دوبارہ داخلے پر پابندی بھی لگائیں۔ حالیہ برسوں میں حکومت نے ویزا قوانین کے نفاذ کو مزید سخت کر دیا ہے، خاص طور پر ان غیر ملکیوں کے خلاف جو کاروباری یا سیاحتی ویزے پر آ کر وقت ختم ہونے کے باوجود واپس نہیں جاتے۔
امیگریشن امور کے ماہر اور سینیئر صحافی نادر خان کے مطابق، پاکستان میں غیر ملکیوں کی نگرانی اور قانونی حیثیت جانچنے کے لیے پولیس کی اسپیشل برانچ کا فارن رجسٹریشن سسٹم (FRS) اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کا مکمل ریکارڈ، بشمول ویزا کی مدت، رہائش کا پتہ، کام کی نوعیت اور سفری تفصیلات مرتب کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی فرد اپنی ویزا مدت سے زیادہ قیام کرے تو اس کی اطلاع ایف آئی اے یا پولیس کو دی جاتی ہے، اور اس پر قانونی کارروائی عمل میں آتی ہے۔
محمد انیس کا کہنا ہے کہ اصل سوال یہ نہیں کہ رسینا کا ویزا کب ختم ہوا، بلکہ یہ ہے کہ ایک بیمار، بیوہ اور تنہا عورت جو صرف اپنے شوہر کی محبت میں پاکستان آئی تھی، سترہ برس بعد بھی اپنے وطن واپس جانے کی منتظر ہے، کیا ہم اسے قانون کے بے لچک شکنجے میں جکڑ کر مزید اذیت دیں گے یا انسانیت کے ناتے اسے جانے دیں گے؟
رسینا شریف کی زندگی دراصل جنوبی ایشیا میں ہونے والی سرحد پار شادیوں کے ان پوشیدہ المیوں کی عکاس ہے، جن میں جوڑے رومانی جذبے میں تو سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، مگر قانونی پیچیدگیوں اور غیر متوقع حالات کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔ ویزا کی تجدید، شہریت کا مسئلہ، اور شریکِ حیات کے انتقال کے بعد قانونی شناخت کا بحران — یہ سب ایسے چیلنج ہیں جو نہ صرف ان کی زندگی بلکہ ان کے مستقبل کو بھی مفلوج کر دیتے ہیں۔
رسینا کی آخری التجا سادہ ہے: "میرے پاس وقت کم ہے، زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں۔ بس مجھے اپنے ملک واپس جانے دیا جائے۔ جن کا کوئی سہارا نہ ہو، ان کے لیے جرمانے معاف کیے جائیں اور واپسی کا محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔”