گلگت بلتستان کے علاقے دنیور میں ایک افسوسناک حادثے نے پورے خطے کو سوگ میں مبتلا کر دیا۔ اتوار کو لینڈ سلائیڈنگ کے ایک بڑے واقعے میں کم از کم سات مقامی رضاکار ملبے تلے دب کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ تین دیگر شدید زخمی ہو گئے۔ یہ رضاکار سیلاب سے تباہ ہونے والے واٹر چینل کی مرمت اور بحالی میں مصروف تھے کہ اچانک پہاڑ سے بھاری مٹی اور پتھروں کا تودہ ان پر آ گرا۔
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب دو روز قبل ایک برفانی جھیل کے پھٹنے سے آنے والے خوفناک سیلاب نے نہ صرف قریبی آبادیوں کو متاثر کیا بلکہ پاکستان اور چین کو ملانے والی اہم شاہراہ قراقرم کا ایک حصہ بھی اپنے ساتھ بہا دیا۔ ہنزہ کے قریب اس شاہراہ کا دریا برد ہونا دونوں ممالک کے درمیان زمینی رابطے کی معطلی کا سبب بن گیا، جس سے تجارتی اور سفری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
حکومتِ گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق، انجینیئرز اور مزدوروں کو بھاری مشینری کے ساتھ موقع پر پہنچا دیا گیا ہے تاکہ جلد از جلد سڑک کی بحالی اور مرمت کا عمل شروع کیا جا سکے۔ تاہم، مسلسل بارشوں اور مزید لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے نے ریسکیو اور مرمت کے کام کو نہایت دشوار بنا دیا ہے۔ مقامی پولیس افسر حسن علی نے بتایا کہ متاثرہ خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے اور بے گھر ہونے والے لوگوں کو فوری خوراک اور ضروری سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں صرف اس خطے تک محدود نہیں رہیں۔ 26 جون سے جاری غیر معمولی بارشوں اور طغیانی نے ملک بھر میں اب تک 300 سے زائد افراد کی جان لے لی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بارش کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جنہوں نے سڑکوں، مکانات اور زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ گلبر خان نے اس افسوسناک واقعے میں جان دینے والے رضاکاروں کو "کمیونٹی کے اصل ہیرو” قرار دیا، جنہوں نے دوسروں کی زندگی بچانے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی لواحقین سے گہری تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان بہادر افراد کی قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ شدید بارشوں میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا واضح کردار ہے۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے ماہرین نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ 24 جون سے 23 جولائی تک پاکستان میں ہونے والی بارشیں اوسط سے 10 سے 15 فیصد زیادہ رہیں، اور یہ غیر معمولی اضافہ براہِ راست گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ پاکستان دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کرتا ہے، لیکن بدلتے موسم اور شدید ماحولیاتی اثرات کا بوجھ اس پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے۔
یہ صورتحال کوئی نئی نہیں۔ 2022 کے مون سون میں بھی طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلابوں نے 1700 سے زائد جانیں لے لی تھیں اور ملک کو تقریباً 40 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ برسوں میں ایسے سانحات کی شدت اور تعداد دونوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔