امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات میں حالیہ کشیدگی نے عالمی معیشت، خاص طور پر جنوبی ایشیا کے ٹیکسٹائل شعبے پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور میں بھارت سے آنے والی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے گئے، جس کے نتیجے میں عالمی تجارتی نقشے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
اس غیر معمولی صورتحال نے پاکستان کے لیے ایک ایسا موقع پیدا کر دیا ہے جس سے اگر درست حکمت عملی کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے تو نہ صرف ٹیکسٹائل بلکہ دیگر برآمدی شعبوں میں بھی امریکی منڈی میں اپنی موجودگی کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان کو خاص فائدہ ٹیکسٹائل شعبے میں مل سکتا ہے کیونکہ بھارت پر عائد اضافی محصولات نے اس کی امریکی منڈی میں مسابقتی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر امریکہ میں خطے میں سب سے کم یعنی صرف 19 فیصد ٹیرف عائد ہے، جبکہ بھارت پر 50 فیصد اور بنگلہ دیش و ویتنام پر 20 سے 25 فیصد ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔ یہ فرق پاکستان کے لیے ایک واضح مسابقتی برتری ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی رکاوٹ بھی موجود ہے، اور وہ ہے بلند پیداواری لاگت۔
بجلی، گیس اور ٹیکسز کی بلند قیمتیں پاکستانی صنعتکاروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں، جو اس ممکنہ فائدے کو کم کر سکتی ہیں۔ عاطف اکرام شیخ نے زور دیا کہ حکومت کو فوری طور پر پیداواری لاگت کم کرنے، توانائی کے نرخوں میں کمی اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہییں۔
امریکہ کی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں بھارت کا موجودہ شیئر تقریباً 8 فیصد ہے، جبکہ پاکستان کا حصہ محض 2.5 فیصد ہے۔ فارٹیکس فیبرکس کے سی ای او عثمان ذاہد کے مطابق اگر بھارت پر 25 فیصد اضافی ٹیرف برقرار رہتا ہے تو پاکستان ہوم ٹیکسٹائل کے شعبے میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان تقریباً 17 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتا ہے، جن میں سے 4 ارب ڈالر کا مال امریکہ کو بھیجا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مزید اربوں ڈالر کی برآمدات بڑھانے کی گنجائش موجود ہے، بشرطیکہ حکومتی پالیسیاں اور صنعتی حالات اس کی اجازت دیں۔
پاکستان کی برآمدی صلاحیت صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں، بلکہ لیدر مصنوعات، کھیلوں کا سامان، قالین اور فوڈ آئٹمز میں بھی پاکستان عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت پر عائد بھاری محصولات نے ان تمام شعبوں کے لیے امریکی منڈی کے دروازے کھول دیے ہیں، اور اگر ان مواقع کو سنجیدگی سے لیا جائے تو پاکستان امریکی صارفین کے لیے ایک اہم سپلائر کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کر سکتا ہے۔
ٹیکسٹائل کے علاوہ چاول کے شعبے میں بھی مثبت پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2024 میں پاکستان نے 7 لاکھ 72 ہزار 725 ٹن باسمتی چاول برآمد کیے، جن سے تقریباً 87 کروڑ 69 لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ اس عرصے میں امریکہ نے پاکستان کی کل باسمتی برآمدات کا 24 فیصد خریدا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تجارتی امکانات ایک سے زیادہ محاذوں پر موجود ہیں۔
حالیہ دنوں میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تیل کے ذخائر کی ترقی کے لیے ایک اہم معاہدہ بھی طے پایا ہے، جسے اسلام آباد نے ایک وسیع تر اقتصادی اور سٹریٹجک شراکت داری کا حصہ قرار دیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس قسم کی شراکت داری سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، اور اگر سرمایہ کاری بڑھی تو پیداواری لاگت کم کرنے اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے میں مدد ملے گی، جو بالآخر برآمدات میں اضافے کا باعث بنے گا۔
عاطف اکرام شیخ نے یہ بھی واضح کیا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے طویل المدتی پالیسیوں، سنگل ڈیجٹ سود کی شرح، اور توانائی کے نرخوں میں کمی کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اگر حکومت یہ اقدامات بروقت اٹھا لے تو پاکستان نہ صرف ٹیکسٹائل بلکہ دیگر برآمدی شعبوں میں بھی امریکی منڈی میں اپنی موجودگی دوگنی کر سکتا ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع ہے، تاہم اگر پیداواری لاگت کو کم نہ کیا گیا، توانائی کی قیمتوں میں استحکام نہ آیا اور پالیسیوں میں تسلسل نہ رکھا گیا تو یہ سنہری موقع ضائع ہو سکتا ہے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، صنعتکار اور برآمد کنندگان ایک مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ عالمی منڈی میں پاکستان کا مقام مضبوط کیا جا سکے۔