خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں گزشتہ چند دنوں سے جاری شدید بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں تباہی کی ایک طویل داستان رقم ہو گئی ہے۔ دریاؤں میں طغیانی، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے کئی بستیاں ملیا میٹ کر دیں۔ حکام کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 200 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی اور بے گھر ہو گئے ہیں۔
سب سے زیادہ تباہی خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں دیکھی گئی، جہاں کلاؤڈ برسٹ کے بعد آنے والے اچانک سیلاب نے ایک سو بیس سے زائد جانیں لے لیں۔ کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، مکانات، کھیت اور باغات بہہ گئے، جبکہ مویشی اور گاڑیاں بھی پانی کی نذر ہو گئیں۔ علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور مقامی آبادی کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہے۔
سوات میں دریائے سوات بپھر کر اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو بہا لے گیا۔ مینگورہ میں ندی نالے اوور فلو ہو کر گھروں میں داخل ہو گئے، اور پانی کا زور اتنا شدید تھا کہ رابطہ پل بھی ٹوٹ کر بہہ گئے۔
باجوڑ میں صورتحال یکسر مختلف مگر اتنی ہی سنگین رہی۔ کلاؤڈ برسٹ کے بعد آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے 21 افراد کی جان لے لی۔ تحصیل سالارزئی کے جبراڑئی گاؤں میں متعدد مکانات زمین بوس ہو گئے اور اہم سڑکیں اور پل مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ ریسکیو آپریشن کے دوران ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جب متاثرین تک امدادی سامان پہنچانے کے لیے روانہ ہونے والا خیبر پختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر خراب موسم کے باعث مہمند کی فضائی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں دو پائلٹس سمیت عملے کے پانچ افراد شہید ہو گئے۔ صوبائی حکومت نے صوبے بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
مانسہرہ کے ڈھیری حلیم گاؤں میں رات گئے آنے والے طوفانی ریلے میں بہہ جانے والے 16 افراد کی لاشیں بٹگرام سے برآمد ہوئیں۔ بونیر، باجوڑ، مانسہرہ اور بٹگرام کو سرکاری طور پر آفت زدہ علاقے قرار دے دیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان میں بھی موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں متعدد وادیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ چلاس کے اوچھار نالے میں کئی افراد پانی میں بہہ گئے جبکہ کچھ لوگوں نے جان بچانے کے لیے درختوں کے تنوں کا سہارا لیا۔ استور میں تیار فصلیں، دکانیں، درخت اور موٹرسائیکلیں سیلاب میں بہہ گئیں۔ شاہراہ قراقرم کے متعدد حصے زمین بوس ہونے کے باعث گلگت اور راولپنڈی کے درمیان زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔ اسکردو میں سڑکیں بند ہونے اور سدپارہ ڈیم کا واٹر چینل بہہ جانے کے بعد بجلی گھر بند کر دیے گئے۔
آزاد کشمیر میں وادی نیلم سب سے زیادہ متاثر ہوئی، جہاں سیلابی ریلے چھ پلوں کو بہا لے گئے۔ مظفرآباد میں کلاوڈ برسٹ کے باعث ایک ہی خاندان کے چھ افراد سمیت آٹھ جانیں ضائع ہو گئیں۔ رتی گلی کی سڑک بہہ جانے سے بیس کیمپ میں پھنسے 800 سیاحوں کو بڑی محنت کے بعد ریسکیو کر لیا گیا۔ لینڈ سلائیڈنگ نے شاہراہ کوہالہ، شاہراہ نیلم، سری نگر-مظفرآباد سیکشن اور لیپہ مظفرآباد روڈ کو کئی مقامات پر بند کر دیا ہے۔
شدید بارشوں اور خطرناک حالات کے پیش نظر آزاد کشمیر حکومت نے دو روز کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے، مگر خراب موسم، منقطع راستوں اور محدود وسائل کے باعث امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ایسے شدید موسمی واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اس کے اثرات سب سے زیادہ غریب اور پہاڑی علاقوں کی آبادی پر پڑ رہے ہیں۔