جنیوا میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے تحت پلاسٹک آلودگی سے متعلق عالمی مذاکرات نے پاکستان کو ایک اہم سفارتی کامیابی فراہم کی ہے۔
اس اجلاس میں 46 ممالک نے متفقہ طور پر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی، ڈاکٹر مصدق ملک کو آئندہ اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب کیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف پاکستان کی ماحولیاتی سفارت کاری کو نئی شناخت دی بلکہ اسے ترقی پذیر دنیا کی مضبوط آواز کے طور پر بھی اجاگر کیا۔
یہ اجلاس اقوام متحدہ کی بین الاقوامی مذاکراتی کمیٹی کے دائرہ کار میں منعقد ہوا، جہاں پلاسٹک آلودگی کے بحران اور اس سے نمٹنے کے لیے ممکنہ عالمی معاہدے پر غور کیا گیا۔ دنیا بھر سے ماہرین، وزراء اور پالیسی ساز اس اجلاس میں شریک ہوئے، جن میں خلیجی، ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے نمائندے بھی شامل تھے۔
اجلاس کے دوران پاکستانی وفد کی سفارتی مہارت نمایاں رہی اور متعدد ممالک نے پاکستان کی پیش کردہ تجاویز کی بھرپور حمایت کی۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے اپنے خطاب میں ترقی یافتہ ممالک کی اس پالیسی پر سخت تنقید کی جس کے تحت وہ پلاسٹک کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر حصہ لیتے ہیں، مگر اس کے ماحولیاتی اثرات کا بوجھ ترقی پذیر ممالک پر ڈال دیتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پلاسٹک آلودگی محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انصاف، عوامی صحت، خود ارادیت اور قومی سلامتی سے جڑا ہوا چیلنج ہے۔
ان کے مطابق یورپ میں فی کس پلاسٹک کے استعمال کی مقدار سالانہ 150 کلوگرام ہے جبکہ پاکستان میں یہ محض 7 کلوگرام ہے، اس کے باوجود پلاسٹک فضلہ اکثر ترقی پذیر ممالک کو بھیج دیا جاتا ہے۔
اپنی تقریر میں انہوں نے ایک جامع عالمی لائحہ عمل پیش کیا جس میں دو بڑے پہلو شامل تھے: پہلا، وسیع صارف ذمہ داری کا فریم ورک، جس کے تحت زیادہ استعمال کرنے والے ممالک کو عالمی فنڈ میں مالی معاونت فراہم کرنی ہوگی تاکہ پلاسٹک کی ری سائیکلنگ اور ماحول دوست اقدامات ممکن ہو سکیں؛ اور دوسرا، گلوبل پلاسٹک کریڈٹ مارکیٹ، جس میں کاربن کریڈٹس کی طرز پر ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک کے ماحولیاتی اقدامات کے بدلے کریڈٹس خرید سکیں۔ اس ماڈل کا مقصد عالمی سطح پر ایک متوازن اور شفاف نظام قائم کرنا ہے۔
پاکستان کو صدارت دیے جانے کے اعلان پر بھارتی وفد نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا، تاہم کسی بھی شریک ملک نے بھارتی احتجاج کی حمایت نہیں کی۔ اس رویے نے نہ صرف بھارت کو سفارتی طور پر تنہا کر دیا بلکہ پاکستان کی پوزیشن کو مزید مستحکم کر دیا۔ اجلاس میں موجود کئی یورپی، خلیجی اور افریقی ممالک نے پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہا اور اسے پلاسٹک آلودگی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک اہم قدم قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جنیوا اجلاس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک بھی عالمی ماحولیاتی پالیسی میں قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے پاس مضبوط سفارتی قیادت اور واضح مؤقف موجود ہو۔ اس پیشرفت نے پاکستان کو نہ صرف ماحولیاتی سفارت کاری کے میدان میں نمایاں کیا ہے بلکہ اسے جنوبی ایشیا میں ایک اہم پالیسی ساز قوت کے طور پر بھی ابھارا ہے۔