پنجاب حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ لاہور میں فروری 2026 سے جدید برقی ٹرام سروس شروع کی جائے گی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بڑے شہروں میں آلودگی اور ٹریفک کے مسائل سنگین صورت اختیار کر رہے ہیں اور شہریوں کے لیے ایک محفوظ، آرام دہ اور ماحول دوست سفری سہولت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ٹرام کا کامیاب تجرباتی رن مکمل ہونے کے بعد اس منصوبے کو حتمی شکل دی گئی ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ نظام لاہور کے عوام کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔
یہ ٹرام جدید برقی ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جسے چین سے درآمد کیا گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی خاص بات یہ ہے کہ اسے صرف 10 منٹ کی چارجنگ کے بعد 25 سے 27 کلومیٹر تک چلایا جا سکتا ہے۔ ٹرام کا ڈیزائن تین حصوں پر مشتمل ہے اور اس میں 250 مسافروں کے بیٹھنے کی سہولت موجود ہوگی، جبکہ ضرورت کے مطابق اس گنجائش کو 300 تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ نظام مکمل طور پر ٹریک لیس ہے اور ورچوئل ٹریک ٹیکنالوجی پر چلتا ہے، جس میں GPS، ڈیجیٹل میپنگ اور سینسرز شامل ہیں۔ اس خصوصیت کے باعث اسے روایتی پٹریوں کی ضرورت نہیں ہوگی اور یہ سڑک پر موجود دیگر ٹریفک کے ساتھ باآسانی چل سکے گی۔
ابتدائی مرحلے میں ٹرام کو لاہور کی کینال روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک چلایا جائے گا۔ اس روٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ، دفتری ملازمین اور روزانہ سفر کرنے والے افراد کو سہولت مل سکے۔ یہ منصوبہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کی ایک بڑی کوشش بھی ہے کیونکہ لاہور میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے دھواں اور شور میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب حکومت کا وژن صرف لاہور تک محدود نہیں۔ فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے صنعتی شہروں میں بھی میٹرو ٹرین اور ٹرام منصوبوں پر کام جاری ہے۔ فیصل آباد میں روزانہ تین لاکھ مسافروں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ گوجرانوالہ میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو یہ سہولت میسر آئے گی۔ فیصل آباد میٹرو منصوبے پر 110 ملین ڈالر اور گوجرانوالہ منصوبے پر 50 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس توسیع سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت صوبے میں جدید شہری ٹرانسپورٹ کا جال بچھانے کے عزم پر کاربند ہے۔
یہ منصوبہ صرف سفری سہولت تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد صوبے میں ایک ایسی شہری ثقافت کو فروغ دینا ہے جو جدید دنیا کے معیار کے مطابق ہو۔ یہ ٹرام دنیا کے ان جدید ترین نظاموں میں سے ایک ہے جو ابوظہبی، ہانگ کانگ اور چین کے دیگر بڑے شہروں میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ پاکستان میں اس کی شروعات سے شہریوں کو ایک ایسا ٹرانسپورٹ ماڈل فراہم ہوگا جو وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحول کے لیے بھی سود مند ہے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات دلچسپ ہے کہ پاکستان میں ٹرام کوئی نیا تصور نہیں۔ 1884 میں کراچی میں پہلی بار ٹرام چلائی گئی تھی جو تقریباً ایک صدی تک یعنی 1975 تک شہریوں کو سفری سہولت فراہم کرتی رہی۔ لاہور میں اس کا دوبارہ آغاز جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا جا رہا ہے جو نہ صرف ایک نئی روایت کی بنیاد رکھے گا بلکہ پرانی یادوں کو بھی تازہ کرے گا۔
یہ اعلان دراصل پنجاب حکومت کی اس وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد شہری ٹرانسپورٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنا، ماحولیاتی آلودگی کم کرنا اور شہریوں کو ایک جدید اور پائیدار سفری سہولت دینا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نظام مستقبل میں دیگر شہروں تک بھی پھیلایا جائے گا تاکہ پورے صوبے میں شہری ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جا سکے۔