پاکستان میں آن لائن کھانے اور گروسری کی ترسیل کے میدان میں سرگرم کمپنی فوڈ پانڈا نے ملک میں اپنی سرگرمیوں کو تیزی سے وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی کے سی ای او منتقا پراچہ کے مطابق آئندہ تین برسوں میں فوڈ پانڈا اپنی موجودہ پہنچ کو دگنا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، اور اس وقت تقریباً 60 لاکھ گھروں تک رسائی رکھنے والی یہ سروس 1 کروڑ 20 لاکھ گھروں کو شامل کرنے کا ہدف بنائے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی کمپنی کا اندازہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں اس کی سرگرمیاں ملک میں دو ارب ڈالر کی معاشی سرگرمی پیدا کریں گی۔
فوڈ پانڈا دراصل جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قائم عالمی گروپ ڈلیوری ہیرو کا حصہ ہے جو دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ پاکستان میں یہ پلیٹ فارم 35 بڑے شہروں میں کام کر رہا ہے اور صارفین کو ریستورانوں، گھریلو شیفز اور اپنی ذاتی گروسری چین "پانڈا مارٹ” سے جوڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہزاروں فری لانس رائیڈرز بھی جڑے ہیں جو آرڈرز کی ترسیل کرتے ہیں۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ریستورانوں کے ساتھ فوڈ پانڈا کا اشتراک کُل فوڈ بزنس کا تقریباً 20 فیصد سنبھالتا ہے۔
منتقا پراچہ کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کی معیشت اب نسبتاً استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے، اس لیے کمپنی کے لیے یہ وقت موزوں ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائے اور آئندہ دو سے تین سال میں اپنے کاروبار کو دگنا کرنے کی کوشش کرے۔
پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ترقیاتی منصوبہ ناممکن بھی نہیں لگتا۔ ملک کی آبادی تقریباً 24 کروڑ ہے، جبکہ موبائل فون کی رسائی 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ای کامرس کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر نوجوان طبقہ اور خواتین بڑی تعداد میں آن لائن شاپنگ اور ڈیجیٹل خدمات کا استعمال کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ Statista کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں پاکستان کی ای کامرس مارکیٹ ہر سال 8 فیصد سے زائد کی شرح سے بڑھے گی۔ صرف آن لائن فوڈ ڈلیوری سیکٹر سے توقع ہے کہ دسمبر 2025 تک 2.35 ارب ڈالر کی آمدنی ہوگی، جبکہ گروسری کی آن لائن ترسیل 2026 تک 19 فیصد کی رفتار سے ترقی کرے گی۔
پراچہ نے بتایا کہ فوڈ پانڈا اگلے سال کے دوران اپنی پانڈا مارٹ گروسری سروس کو سات شہروں سے بڑھا کر بارہ شہروں تک پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ "شاپس” ورٹیکل کے ذریعے مزید مقامی دکانداروں کو پلیٹ فارم پر لایا جائے گا اور چھ سے آٹھ نئی کچن سہولتیں قائم کی جائیں گی۔
کمپنی کا ہدف یہ بھی ہے کہ پہلے موجودہ شہروں میں سروس کو مزید گہرا کیا جائے اور اس کے بعد ملک کے پچاس بڑے شہروں تک اس کا دائرہ بڑھایا جائے۔
ان کے مطابق فوڈ پانڈا صرف نئے شہروں تک پھیلنے کے بجائے موجودہ شہروں کے اندر بھی نئی کیٹیگریز متعارف کرانے پر توجہ دے رہی ہے، جس کا مطلب ہے مزید پانڈا مارٹس، زیادہ شاپس، ریستورانوں کے ساتھ نئے معاہدے اور گھریلو شیفز کی شمولیت۔ مزید برآں کمپنی صارفین کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے موبائل ایپ میں بھی کئی نئی خصوصیات متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ آرڈرنگ کا عمل تیز اور آسان بنایا جا سکے۔
البتہ، اس ترقی کی راہ میں کئی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں سیاسی ریلیاں، سڑکوں کی بندش، بارشوں کا شدید سلسلہ اور انٹرنیٹ کی بندش اکثر کاروبار کو متاثر کرتی ہیں۔
رپورٹوں کے مطابق سال 2024 میں انٹرنیٹ کی بندشوں کے باعث پاکستان کو 1.62 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اگر ملک گیر انٹرنیٹ بلیک آؤٹ طویل ہوجائے تو فوڈ پانڈا کے روزانہ کاروبار پر 30 سے 50 فیصد تک اثر پڑ سکتا ہے، جس سے رائیڈرز کی آمدنی بھی متاثر ہوتی ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کمپنی نے پانڈا مارٹس، کچنز اور اپنے مراکز پر وائی فائی کی سہولت فراہم کی ہے تاکہ آرڈرز میں تعطل نہ آئے۔ اس کے علاوہ کمپنی نے طلب اور سپلائی کے منصوبہ بندی نظام کو آٹومیٹ کر دیا ہے، جس میں مصنوعی ذہانت اور سنگاپور و برلن کی انجینئرنگ ٹیموں کی مدد سے رائیڈرز کے لیے بہترین راستے اور لاجسٹکس تیار کیے جاتے ہیں۔
آئندہ برسوں میں کمپنی کا منصوبہ ہے کہ AI پر مبنی پریڈکٹیو اینالیسز بھی شامل کرے تاکہ کسٹمر ڈیمانڈ کا پہلے سے اندازہ لگایا جا سکے اور سروس مزید مؤثر ہو۔
جب فوڈ پانڈا کے عوامی سطح پر شیئرز جاری کرنے (آئی پی او) سے متعلق پوچھا گیا تو پراچہ نے کہا کہ اس کا فیصلہ بنیادی طور پر ڈلیوری ہیرو اور مارکیٹ کی صورتحال پر منحصر ہوگا۔
ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کے لیے سہولیات بڑھنے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان کی مارکیٹ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ عارف حبیب کموڈیٹیز کے سی ای او احسن مہنتی نے کہا کہ پاکستان اس وقت سرمایہ کاری کے لیے پرکشش نظر آ رہا ہے، خاص طور پر فوڈ پانڈا جیسے منصوبوں کے لیے۔
صارفین کی جانب سے بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی پولیس افسرہ صدیہ محمد بلال نے کہا کہ کمپنی کی خدمات مجموعی طور پر اچھی ہیں اور ان کے نرخ بھی مناسب ہیں، اس لیے توسیع کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ محمد صفیر ملک نے کہا کہ فوڈ پانڈا کو اپنی خدمات کو مزید بہتر بنانے اور گاہکوں کو رعایتی پیکجز دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب کچھ صارفین نے تاخیر، اضافی چارجز اور رائیڈرز کی غیر مستقل کارکردگی پر تنقید کی۔ زارا یوسف کے مطابق خاص ایام جیسے عید یا 14 اگست کے موقع پر آرڈرز اکثر 30 سے 45 منٹ تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی کو گھریلو خواتین کو کاروبار میں شامل کرنے کے لیے اپنے ہوم سروس ماڈل کو مزید بہتر بنانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف خواتین کی معاشی سرگرمی بڑھے گی بلکہ فوڈ پانڈا کی رسائی بھی زیادہ گھرانوں تک ممکن ہوگی۔
بینک کے آئی ٹی ماہر منیش کمار نے کہا کہ اکثر اوقات بل میں پوشیدہ چارجز شامل کر دیے جاتے ہیں جو پہلے نظر نہیں آتے۔ ان کے مطابق کمپنی کو بارش یا انٹرنیٹ کی بندش جیسے ہنگامی حالات میں بھی اپنی ترسیل بہتر بنانی ہوگی۔ محمد زین، جو صرف 16 سال کے ہیں، نے کہا کہ رائیڈرز کی تربیت پر مزید توجہ دی جائے کیونکہ کبھی کبھار وہ غلط آرڈر دے دیتے ہیں یا وقت پر نہیں پہنچتے۔ صارفین کا ماننا ہے کہ اگر فوڈ پانڈا اپنی سروس کے معیار کو مزید بہتر بنائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں ڈیجیٹل فوڈ ڈیلیوری کا سب سے بڑا نام بن سکتا ہے۔