اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن (CAREC) مرحلہ 3 کے 170 ارب روپے مالیت کے بین الاقوامی سڑک منصوبے میں سنگین بے ضابطگیوں، بدنیتی، جعلی ٹینڈرز اور مبینہ بدعنوانی پر ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) کے آٹھ سینئر افسران کو فوری طور پر معطل کر دیا ہے اور ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ معطل کیے گئے افسران میں ممبر انجینئرنگ عاصم امین، ممبر امتیاز احمد کھوکھر، محمد طلحہ (ڈائریکٹر انجینئرنگ) اور پروکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ کے چار دیگر افسران شامل ہیں۔ ساتھ ہی، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سمیع الرحمٰن بھی انکوائری کا سامنا کریں گے۔
وزیراعظم ہاؤس کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری محمد مشتاق احمد کریں گے، جب کہ اس میں وزارتِ تجارت کے سیکریٹری، این ایچ اے کے سابق ممبر مختار احمد درانی، چیف انجینئر (ریٹائرڈ) اکبر علی اور پلاننگ کمیشن کے رکن شامل ہوں گے۔ کمیٹی کا مینڈیٹ انتہائی وسیع ہے، جس میں کنٹریکٹرز کی بلیک لسٹنگ کا نظام، بولیوں کی تکنیکی جانچ، شکایات کے ازالے کے نظام، منصوبے میں تاخیر کی وجوہات اور آئندہ کے لیے پالیسی سفارشات شامل ہیں۔ کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایک ہفتے کے اندر وزیراعظم کو قابلِ عمل سفارشات پیش کرے۔
دوسری جانب، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور ڈویژن نے بھی این ایچ اے کو دو دن کی حتمی مہلت دے دی ہے کہ وہ CAREC فیز 3 کے معاہدے کی شفافیت سے متعلق تمام دستاویزی شواہد پیش کرے، ورنہ معاہدہ منسوخ کرنے اور کامیاب جوائنٹ وینچر کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی جائے گی۔ کمیٹی نے برملا سوال اٹھایا کہ جب چار ماہ سے این ایچ اے متعلقہ دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، تو وزیراعظم کی تحقیقاتی کمیٹی کیسے کسی نتیجے تک پہنچے گی؟ اس معاملے کی تحقیقات پہلے ہی پانچ مختلف پارلیمانی کمیٹیوں اور پبلک پروکورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (PPRA) میں جاری ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ CAREC مرحلہ 3 کا ٹھیکہ جس جوائنٹ وینچر (NXCC، ڈائنامکس کنسٹرکٹرز، رستم ایسوسی ایٹس) کو دیا گیا، وہ دو سال قبل ایک منصوبہ وقت پر مکمل نہ کرنے پر نااہل قرار دیا جا چکا تھا۔ پارلیمانی کمیٹیوں کا کہنا ہے کہ این ایچ اے نے نہ صرف مطلوبہ شواہد فراہم نہیں کیے بلکہ کئی وزارتوں اور اداروں کو گمراہ بھی کرنے کی کوشش کی۔
CAREC فیز 3 کے چار حصے شامل ہیں:
1. راجن پور تا جام پور (58 کلومیٹر)،
2. جام پور تا ڈیرہ غازی خان (64 کلومیٹر)،
3. ڈی جی خان تا ٹِبی قیصرانی (112 کلومیٹر)،
4. ٹِبی قیصرانی تا ڈیرہ اسماعیل خان (96 کلومیٹر)۔
سینیٹر کامل علی آغا نے افسران کی بڑی تعداد میں معطلی کو "انتہائی سنگین” معاملہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ معطل افسران کے خلاف چارج شیٹ فوری پیش کی جائے۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے شندور-گلگت روڈ منصوبے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وہی کمپنی شامل ہے جو پہلے جعلی دستاویزات جمع کروانے پر نااہل ہو چکی تھی۔
یہ پورا معاملہ نہ صرف این ایچ اے کی ساکھ بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی سڑک منصوبوں میں شفافیت اور احتساب کے نظام پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے۔ اگر وزیراعظم کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے سخت اور شفاف رپورٹ پیش کی، تو یہ ملک میں بڑے پیمانے پر احتساب کی نئی مثال بن سکتی ہے۔
