پاکستان کو بھارت کی جانب سے دریائے ستلج اور دریائے توی میں ممکنہ طغیانی کے حوالے سے باضابطہ اطلاع دی گئی ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق یہ پیغام 24 اگست کو بھارت کی طرف سے سفارتی چینلز کے ذریعے پہنچایا گیا، جبکہ عمومی طریقہ کار کے برعکس سندھ طاس کمیشن کو بائی پاس کیا گیا۔
ترجمان نے وضاحت کی کہ بھارت نے رواں ماہ پاکستان کو یہ دوسرا انتباہ دیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ دریائے ستلج میں پانی کے بہاؤ میں غیر معمولی اضافہ متوقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہری کے پتن کے مقام سے بڑی مقدار میں پانی چھوڑنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جس سے پاکستان کے نشیبی علاقے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یہ رابطہ مئی میں ہونے والی پاک بھارت جھڑپوں کے بعد ہونے والے سفارتی روابط میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس سے قبل بھارت نے دریائے توی میں ممکنہ سیلابی صورتحال سے متعلق پاکستان کو اطلاع دی تھی۔ ماہرین کے مطابق ان رابطوں کا مطلب یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک میں محدود سطح پر سفارتی بات چیت دوبارہ بحال ہو رہی ہے، تاہم یہ پیش رفت ایک سنگین انسانی بحران کے سائے میں ہو رہی ہے۔
پاکستانی وزارتِ آبی وسائل نے بھارتی اطلاع موصول ہوتے ہی ہنگامی اقدام کے طور پر 27 وزارتوں اور متعلقہ اداروں کو الرٹ کر دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے دریائے ستلج میں اضافی پانی چھوڑا تو کئی اضلاع میں بڑے پیمانے پر تباہی کا اندیشہ ہے۔
مقامی رپورٹس کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع پہلے ہی حالیہ بارشوں اور پانی کے دباؤ سے متاثر ہیں۔ کھڑی فصلوں کے ڈوبنے، مال مویشیوں کے نقصان اور لوگوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر مزید پانی آیا تو یہ نقصان کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی تمام شقوں کا پابند ہے اور یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل کرنا نہ صرف قانونی لحاظ سے سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے خطے کے امن و استحکام پر بھی خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر صورتحال پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو نہ صرف سیلابی تباہی میں اضافہ ہوگا بلکہ پاک بھارت تعلقات میں بھی کشیدگی مزید گہری ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان نے تمام اداروں کو ہائی الرٹ رہنے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری تیاری کرنے کی ہدایت دی ہے۔
