بیجنگ: پاکستان اور چین نے باہمی اقتصادی تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے 8 ارب 50 کروڑ ڈالر مالیت کے مشترکہ منصوبوں اور مفاہمتی یادداشتوں (MoUs) پر دستخط کیے ہیں۔ ان معاہدوں میں زراعت، الیکٹرک وہیکلز، شمسی توانائی، صحت، کیمیکل و پیٹرو کیمیکل، آئرن و اسٹیل، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت، معدنیات، کان کنی اور ٹیکسٹائل سمیت مختلف اہم شعبے شامل ہیں۔ یہ معاہدے وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران بیجنگ میں ہونے والی دوسری پاک-چین بی ٹو بی سرمایہ کاری کانفرنس کے موقع پر طے پائے۔
وزیراعظم شہباز شریف، جو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے چین کے دورے پر گئے ہوئے تھے، نے کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں ان منصوبوں کو پاکستان اور چین کی معیشت کے لیے "لانگ مارچ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان منصوبوں پر عملی طور پر مکمل عملدرآمد ہو گیا تو یہ بیجنگ سے شروع ہو کر اسلام آباد میں اپنی منزل تک پہنچنے والا ایسا سفر ہوگا جو پاکستان کو ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ملک میں تبدیل کر دے گا، جہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی اور لاکھوں منافع بخش روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ اس کانفرنس میں 1.54 ارب ڈالر مالیت کے مشترکہ منصوبوں اور 7 ارب ڈالر کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے، جو مجموعی طور پر 8.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے چینی سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان کی سستی اور تربیت یافتہ افرادی قوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صنعتیں پاکستان منتقل کریں اور زراعت، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت، کان کنی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔
شہباز شریف نے 2015 میں شروع ہونے والے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں چین نے پاکستان میں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جس سے بجلی کے بحران پر قابو پایا گیا، صنعتی پہیہ چلا اور اورنج لائن جیسے بڑے منصوبے مکمل ہوئے۔ انہوں نے چینی سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ پاکستان میں انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ان کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
وزیراعظم نے زور دیا کہ پاکستان اب معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے اور قلیل، وسط اور طویل المدتی سطح پر مثبت اقتصادی اشاریے سامنے آ رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک معاشی بہتری کی راہ پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان موجودہ معاہدے دونوں ممالک کے لیے ترقی، خوشحالی اور باہمی اعتماد کا نیا باب ثابت ہوں گے۔
