کراچی : سندھ کے وزیرِ آبپاشی جام خان شورو نے ایک اہم گفتگو میں کہا ہے کہ اگر سمندر کو پانی فراہم نہ کیا گیا تو قدرتی ایکو سسٹم مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اپنی ضروریات کا پانی نہیں ہے، تو سمندر کو پانی کہاں سے ملے گا؟ انہوں نے کہا کہ قادرآباد پر پانی کی کٹوتی کے بعد پانی کی مقدار 10 لاکھ کیوسک ہو گئی تھی، جبکہ ہیڈ پر گنجائش صرف 8 لاکھ کیوسک تھی، جو پانی کی قلت کی واضح مثال ہے۔
جام خان شورو نے بھارت کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کو اپنے حقائق اور حقیقی مطالبات کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے، کیونکہ ہم نے بھارت کو تین دریا دے دیے اور بھارت نے 33 ایم ایف پانی استعمال کر لیا، جب کہ اس کی اصل ضرورت صرف 8 ایم ایف تھی۔ اس کے برعکس سندھ کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
انہوں نے پنجاب کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے پاس پانی واپس دریا میں آنے کا فائدہ ہے کیونکہ وہاں شگاف کے بعد پانی دوبارہ واپس آ جاتا ہے، مگر سندھ میں شگاف کے بعد پانی واپس سمندر میں نہیں آتا، اس لیے سندھ کے پاس پانی کی قلت کو پورا کرنے کے لیے یہ آپشن نہیں۔
وزیرِ آبپاشی نے بتایا کہ قادرآباد سے تونسہ تک پانی کی مقدار 5 لاکھ کیوسک ہے، مگر پانی دریاؤں میں پھیل چکا ہے۔ سندھ کو کم از کم 127 ایم ایف پانی کی ضرورت ہے، جبکہ تمام سیلاب کے پانی کو ملا کر بھی ہمیں صرف 115 ایم ایف پانی ملتا ہے۔
جام خان شورو نے زور دیا کہ خریف کے موسم میں سندھ پانی کے لیے پکار رہا ہوتا ہے مگر صوبوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا جاتا، جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل فوری تلاش کیا جانا چاہیے۔
