ملتان : ڈائریکٹر جنرل پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب، عرفان علی کاٹھیا نے جنوبی پنجاب کی موجودہ صورتحال کو ’’انتہائی چیلنجنگ‘‘ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلالپور پیروالا اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں دریائے راوی، چناب اور ستلج کا پانی بیک وقت آبادیوں کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔
عرفان علی کاٹھیا نے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ چند گھنٹے پہلے آنے والے ایک بڑے شگاف کے نتیجے میں پانچ سے چھ مزید آبادیاں شدید خطرے میں ہیں، اور تمام تر توجہ عوام کے بروقت انخلا پر مرکوز ہے۔ ان کے مطابق لوگوں نے انخلا سے گریز کیا، جو ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز آج جلالپور پیروالا کا دورہ کریں گی تاکہ امدادی سرگرمیوں کا خود جائزہ لے سکیں۔ اس وقت علاقے میں 175 سے زائد ریسکیو کی کشتیاں کام کر رہی ہیں، جبکہ پاک فوج بھی ایک ہفتے سے مسلسل متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن میں مصروف ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت کی جانب سے دریائے راوی اور ستلج میں پانی چھوڑنے کا سلسلہ رک چکا ہے اور اب وہ صرف اپنی ضرورت کےمطابق ڈاؤن اسٹریم نہروں میں پانی ڈال رہا ہے۔ تاہم جنوبی پنجاب میں اگلے تین دن بڑے چیلنج ثابت ہوں گے۔ ملتان،مظفرگڑھ، لیاقت پور اوررحیم یارخان کی صورتحال مزید بگڑسکتی ہےعرفان علی کاٹھیا نےخبردارکیا۔
ادھر ملتان پولیس کے مطابق جلالپور پیروالا میں بھرانیں بند ٹوٹنے کے بعد پانی تیزی سے شہری آبادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر نے کہا کہ شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔
دوسری جانب ریسکیو حکام نے بتایا کہ جلالپور پیروالا میں قائم مرکزی بیس کیمپ سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے، جس کے باعث ریسکیو کا سامان محفوظ مقام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ حکام کے مطابق اس غیر متوقع صورتحال کے باوجود امدادی کاموں میں خلل نہیں آنے دیا جائے گا۔
عرفان علی کاٹھیا نے یہ بھی بتایا کہ اپر پنجاب کے بیشتر اضلاع میں پانی اترنے لگا ہے۔ نارووال، لاہور، ننکانہ اور شیخوپورہ میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے جبکہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، وزیرآباد، حافظ آباد اور چنیوٹ میں بھی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ ان علاقوں میں ریلیف کیمپوں سے متاثرین واپس گھروں کو جانا شروع کر چکے ہیں۔
تاہم جنوبی پنجاب کے لیے اگلے دن فیصلہ کن قرار دیے جا رہے ہیں، جہاں ہزاروں افراد اب بھی کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔
