اسلام آباد ہائی کورٹ میں حالیہ دنوں ایک نیا تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے، جب جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے وکیل ایمان مزاری کی شکایت پر کارروائی کے نتیجے میں انتظامی عملے نے جسٹس ثمن کو ہراسگی شکایات سننے کے اختیارات سے محروم کر دیا۔ ایمان مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف ہراسگی کی شکایت درج کرائی تھی، جس پر جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے بطور مجاز اتھارٹی شکایت پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ایمان مزاری نے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی سے رجوع کیا تھا اور اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے فوری طور پر شکایت پر کارروائی کی اور انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس میں جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس امتیاز شامل تھے۔انکوائری کمیٹی کا مقصدہراسگی کی شکایات کی تحقیقات کرناتھا،تاہم، اس تمام کارروائی کےبعدعدالت کے انتظامی عملے نے جسٹس ثمن کو مجاز اتھارٹی کے طور پر ڈی نوٹیفائی کردیا اور ان کی جگہ جسٹس انعام امین منہاس کوتعینات کردیا۔
گذشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایمان مزاری اور چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس دوران،چیف جسٹس نے ایمان مزاری کوتوہینِ عدالت کی وارننگ دی اورمبینہ طور پرایسے ریمارکس دیے کہ وہ انہیں قابو میں کرلیں گے۔ایمان مزاری نے اس پرمؤقف اختیار کیا کہ وہ صرف اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کررہی ہیں اوراگرتوہینِ عدالت کی کارروائی کی جاتی ہے تواس کاسامنا کرنےکےلیےتیارہیں۔
دریں اثنا، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازع ٹوئٹس کیس میں تحقیقات مکمل کر کے سینئر سول جج عباس شاہ کی عدالت میں چالان جمع کروا دیا ہے۔ اس کیس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ٹوئٹس آن لائن کنٹینٹ ریگولیشنز کی خلاف ورزی ہیں اور ان کے خیالات معاشرتی بے چینی کا باعث بن سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر افسر نے دعویٰ کیا کہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسگی سے تحفظ فراہم کرنے کے ایکٹ 2010 کا اطلاق ججز پر نہیں ہوتا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔اس قانونی پیچیدگی نے معاملے کو مزید الجھا دیا ہے اور اب یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا ججز پر یہ ایکٹ لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔
دوسری جانب، ایک سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کیا کسی جج کو بطور مجاز اتھارٹی انکوائری کمیٹی کا حصہ نہیں بننا چاہیے؟ ایکٹ کی دفعہ 4 کی ذیلی شق 4 کے مطابق، انکوائری کمیٹی کو 30 دن کے اندر اپنی رپورٹ اور سفارشات مجاز اتھارٹی کو پیش کرنی ہوتی ہیں۔ اس سوال نے ہراسگی کے الزامات اور ان کے حل کے لیے قانونی طریقہ کار کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
