کراچی میں منعقد ہونے والا دوسرا انٹرنیشنل ڈیٹ پام فیسٹیول محض ایک تجارتی نمائش یا زرعی میلہ نہیں تھا بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی تھا کہ پاکستان کھجور کی صنعت کو ایک عالمی سطح کے مسابقتی شعبے میں تبدیل کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہا ہے۔
یہ تقریب اس وقت اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی جب متحدہ عرب امارات کے خلیفہ انٹرنیشنل ایوارڈ برائے ڈیٹ پام اینڈ ایگریکلچرل انوویشن نے اس کی سرپرستی کی اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے اس کا انتظام سنبھالا۔ اس تین روزہ اجتماع نے کھجور کے کاشتکاروں، برآمد کنندگان، سرمایہ کاروں اور مختلف ممالک کے ماہرین کو ایک چھت کے نیچے لا کر تبادلہ خیال اور عملی شراکت داری کے نئے دروازے کھول دیے۔
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے، جہاں سالانہ 5 لاکھ 35 ہزار ٹن کے قریب کھجور پیدا کی جاتی ہے۔ اس خطیر پیداوار کے باوجود پاکستان ابھی تک اپنی حقیقی برآمدی صلاحیت کو نہیں پہنچ پایا کیونکہ مقامی کسان جدید ٹیکنالوجی، کولڈ اسٹوریج، پراسیسنگ پلانٹس اور معیاری پیکجنگ کے فقدان سے دوچار ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ اس میلے کو کسانوں کی تربیت، ان کی رہنمائی اور عالمی مارکیٹوں کے تقاضوں سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے ایک شاندار موقع سمجھا گیا۔
میلے میں شریک کاشتکاروں نے کھل کر اپنے مسائل بیان کیے۔ بلوچستان کے علاقے خاران سے تعلق رکھنے والے ایک کاشتکار نے اس امید کا اظہار کیا کہ سعودی عرب اور دبئی کے کاروباری طبقے کے ساتھ تعلقات قائم کر کے وہ اپنی فصل کو بہتر انداز میں منڈی تک پہنچا سکتے ہیں۔ سندھ کے خیرپور سے آئے غلام قاسم جسکانی نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ پاکستان میں کھجور کو پراسیس کرنے کے لیے وہ بنیادی سہولیات دستیاب ہی نہیں ہیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر مسابقت ممکن ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اور نجی شعبہ سرمایہ کاری کرے اور پراسیسنگ، پیکجنگ اور کولڈ اسٹوریج کے نظام قائم کیے جائیں تو پاکستانی کھجور دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنا سکہ جما سکتی ہے۔
اسی میلے میں یو اے ای کی کمپنیوں نے ایسے میش بیگز متعارف کروائے جو کھجوروں کو ماحولیاتی نقصان اور پرندوں کے حملوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی فضلے میں بھی کمی لاتے ہیں۔
مصر کی ایک ریسرچ اینڈ انوویشن کمپنی نے کھجور کے فضلے کو جلانے یا پھینکنے کے بجائے اسے تھرمل انسولیشن اور دیگر ماحول دوست مصنوعات میں بدلنے کی ٹیکنالوجی پیش کی۔ یہ قدم نہ صرف ماحول کے لیے بہتر ہے بلکہ اس سے کسانوں کو اضافی آمدنی کے ذرائع بھی فراہم ہو سکتے ہیں۔
اردن کے نمائندوں نے اپنی منفرد ’مجہول‘ کھجور کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے تجارتی تعلقات کے امکانات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس طرح کے میلوں سے نہ صرف پاکستانی کسانوں کو نئی مارکیٹوں تک رسائی ملے گی بلکہ انہیں عالمی معیار کی پیداوار اور مارکیٹنگ کے نئے طریقے بھی سیکھنے کا موقع ملے گا۔
اس فیسٹیول نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ کھجور کی صنعت پاکستان کے لیے زرِمبادلہ کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن سکتی ہے، بشرطیکہ حکومت اور نجی ادارے مل کر ایسے منصوبے ترتیب دیں جو اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کریں۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اگر پاکستان پیکجنگ، کولڈ چین لاجسٹکس اور معیار کی تصدیق کے نظام پر توجہ دے تو یورپی اور خلیجی مارکیٹوں میں پاکستانی کھجور کو نمایاں مقام دلایا جا سکتا ہے۔
یہ سہ روزہ میلہ نہ صرف پاکستان کے کسانوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا بلکہ یہ ایک پیغام بھی تھا کہ زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی، پائیدار حل اور عالمی تعاون کے بغیر ترقی نہیں دی جا سکتی۔ اس تقریب نے واضح کر دیا کہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین کھجور پیدا کرنے کی صلاحیت تو موجود ہے، اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس صلاحیت کو ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے اور اس سے کسانوں اور ملکی معیشت دونوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔
