اکستان کے توانائی کے شعبے کو کئی برسوں سے درپیش سب سے بڑے بحران یعنی سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضے) کو کم کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے۔
اسلام آباد میں ایک بڑی تقریب کے دوران حکومت پاکستان اور 18 مختلف بینکوں کے ایک اتحاد کے درمیان تقریباً 1.225 کھرب روپے کے فنانسنگ معاہدے پر دستخط کیے گئے، جسے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ری اسٹرکچرنگ ڈیل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد بجلی کے شعبے کی مالی بنیاد کو مستحکم کرنا اور قرضوں کے بوجھ کو منظم طریقے سے کم کرنا ہے۔
اس تقریب کی اہم بات یہ تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف اس وقت نیویارک میں موجود تھے اور انہوں نے ورچوئل طریقے سے اس دستخطی تقریب کو دیکھا۔ انہوں نے اسے "ملکی معیشت اور توانائی کے شعبے میں ایک سنگ میل” قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی کوششوں کو عالمی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے حالیہ ملاقات میں پاکستانی اصلاحاتی ایجنڈے کو سراہا ہے۔ ان کے مطابق اب اگلا مرحلہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری اور لائن لاسز کے مسئلے پر قابو پانا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس معاہدے کو ’’ون ون سچویشن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ براہِ راست توانائی کے شعبے میں جاری مالی دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ہوگا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصلاحات کے ثمرات بالآخر عام صارف تک پہنچیں گے، کیونکہ بہتر مالی انتظام سے بجلی کی فراہمی کے نظام میں استحکام آئے گا۔
یہ معاہدہ دراصل دو بڑے حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ 659.6 ارب روپے کے موجودہ قرضوں کو ری اسٹرکچر کرنے پر مبنی ہے، تاکہ بینکوں کی کتابوں پر دباؤ کم کیا جا سکے۔ دوسرا حصہ 565.4 ارب روپے کی نئی فنانسنگ پر مشتمل ہے جو حکومت کے بقایاجات کو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوگی۔
مزید یہ کہ تقریباً 660 ارب روپے کے خودمختار ضمانتی سرٹیفکیٹس بھی جاری کیے جائیں گے، جس سے بینکوں کے پاس زراعت، چھوٹے اور درمیانے کاروبار (SMEs)، رہائش، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ لگانے کے لیے نئی گنجائش پیدا ہوگی۔
وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری نے اس اقدام کو "تاریخی اور اصلاحات پر مبنی فیصلہ” قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ قدم کسی ایک مسئلے کا حل نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کو مجموعی طور پر درست سمت میں ڈالنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توانائی کی کمپنیوں کے مالی ڈھانچے کو درست کرنا صارفین کے لیے طویل مدت میں ریلیف کا باعث بنے گا۔
پاکستان بینکس ایسوسی ایشن (PBA) کے چیئرمین ظفر مسعود نے اس معاہدے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک مالیاتی لین دین نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بینکاری شعبہ ملک کی ترقی میں برابر کا شریک ہے۔ ان کے مطابق اس معاہدے نے یہ واضح کیا ہے کہ جب نجی اور سرکاری ادارے ایک مشترکہ وژن کے ساتھ مل کر چلتے ہیں تو بڑے سے بڑے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
یہ معاہدہ حکومت کے لیے اضافی بوجھ پیدا کرنے کے بجائے ایک متوازن حکمت عملی پر مبنی ہے۔ قرضوں کی واپسی کے لیے جو موجودہ 3.23 روپے فی یونٹ ڈیٹ سروس سرچارج وصول کیا جا رہا ہے، وہی اس مقصد کے لیے استعمال ہوگا۔
مزید یہ کہ قرضوں کی قیمت KIBOR سے 90 بیسس پوائنٹس کم رکھی گئی ہے، جو موجودہ شرح سے تقریباً 150 بیسس پوائنٹس کم ہے۔ یہ رعایت بینکوں کی جانب سے اپنے منافع میں کمی برداشت کرنے کا عملی مظاہرہ ہے تاکہ ملک کے بڑے مالیاتی مسئلے کو حل کیا جا سکے۔
اب اگر سرکلر ڈیٹ کے پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ مسئلہ کئی برسوں سے ملک کے توانائی کے ڈھانچے کو کھوکھلا کرتا آ رہا ہے۔ اس مسئلے کی جڑیں مختلف عوامل سے جڑی ہیں۔
بجلی چوری اور صارفین سے واجبات کی کم وصولی، بلنگ میں بے ضابطگیاں اور حکومت کی طرف سے سبسڈیز کی ادائیگی میں تاخیر اس قرضے کو بڑھانے والے اہم اسباب ہیں۔ مزید یہ کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو صلاحیتی ادائیگیاں (capacity payments) کرنی پڑتی ہیں، چاہے بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، اور اس سے قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔
جولائی 2025 تک سرکلر ڈیٹ تقریباً 2.3 سے 2.4 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جو کہ پاکستان کے جی ڈی پی کا 2 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس بڑھتے ہوئے قرضے نے نہ صرف بجلی کی ترسیل کے نظام کو غیر مؤثر بنایا ہے بلکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور حکومت کے مالیاتی خسارے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی اس وجہ سے مجروح ہوا ہے۔
بینکاری شعبہ، وزارت خزانہ، وزارت توانائی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (CPPA) نے مل کر اس معاہدے کو ممکن بنایا۔ کئی ماہ کی مشاورت اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے بعد بالآخر یہ معاہدہ وجود میں آیا۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیل آئندہ کے لیے ایک ایسا نمونہ ہے جس کے ذریعے پاکستان اپنے دیگر ڈھانچاتی مسائل کو بھی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے حل کر سکتا ہے۔
یہ معاہدہ محض کاغذی کارروائی نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کو دوبارہ کھڑا کرنے کی ایک سنجیدہ اور بڑی کوشش ہے۔ اگر حکومت نجکاری اور لائن لاسز جیسے بڑے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب رہی تو یہ تاریخی معاہدہ پاکستان کی معیشت کو استحکام کی طرف لے جانے والا ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
