وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئے موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ملاقات اس وقت مزید اہمیت اختیار کر گئی جب پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر بھی وزیراعظم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کی موجودگی نے اس ملاقات کو مزید تاریخی بنا دیا۔
وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق، ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کو ’’مین آف پیس‘‘ قرار دیا اور کہا کہ امریکی صدر کی جرات مندانہ قیادت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس سے خطے میں ایک بڑی تباہی ٹل گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے صرف جنوبی ایشیا میں نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی امن قائم کرنے کے لیے نمایاں اقدامات کیے ہیں۔ خاص طور پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ان کی کوششوں کو وزیراعظم نے بھرپور انداز میں سراہا۔
دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں انسداد دہشت گردی، علاقائی سلامتی اور معاشی تعاون پر تفصیلی گفتگو کی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے کردار کو کھلے عام تسلیم کیے جانے پر وزیراعظم نے شکریہ ادا کیا اور اس بات پر زور دیا کہ سکیورٹی اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں مزید قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔
اس ملاقات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے ٹیرف معاہدے پر بھی گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کی زراعت، آئی ٹی، کان کنی، معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
صدر ٹرمپ نے ملاقات سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عظیم لیڈر تشریف لا رہے ہیں، پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل۔ دونوں غیر معمولی شخصیات ہیں۔ یہ جملہ امریکی اور عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں شامل ہوگیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ امریکہ کی شروعات بھی غیرمعمولی انداز میں ہوئی۔ جب وہ اینڈریوز ایئربیس پہنچے تو ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا۔ امریکی ایئرفورس کے اعلیٰ افسران نے ان کا خیرمقدم کیا اور سخت سکیورٹی میں ان کا موٹرکیڈ وائٹ ہاؤس روانہ ہوا۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں۔ اس اجلاس میں وہ عالمی برادری سے خطاب بھی کریں گے۔ چند روز قبل جنرل اسمبلی کے دوران صدر ٹرمپ اور وزیراعظم کی مختصر ملاقات بھی ہوئی تھی جس نے اس بڑی ملاقات کا پس منظر تیار کیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی میڈیا مانیٹرنگ ادارے ’’رول کال‘‘ نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ یہ ملاقات بند دروازوں کے پیچھے ہوگی اور میڈیا کو براہِ راست رسائی حاصل نہیں ہوگی۔ اس فیصلے نے ملاقات کے گرد تجسس اور دلچسپی کو اور بڑھا دیا۔
یہ ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے، خصوصاً اس وقت جب صدر ٹرمپ نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروا کر ایک بڑے تنازع کو ختم کیا۔ دوسری جانب بھارت اور امریکہ کے تعلقات ویزا پابندیوں، ٹیرف کے اضافے اور جنگ بندی کے معاملات پر کشیدہ ہیں۔
اسی پس منظر میں شہباز شریف کی حکومت نے صدر ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کی سفارش بھی کی تھی۔ اس سے قبل، اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران بھی امریکی صدر نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی، جس نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔
یہ ملاقات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئے باب کی شروعات ہے۔ دونوں ممالک نے نہ صرف عالمی امن کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا بلکہ اقتصادی تعاون کو بھی مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ اس ملاقات نے واضح کر دیا کہ پاکستان اور امریکہ اب مشترکہ طور پر دنیا کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
