پاکستان میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے ہونے والی تباہی کے بعد اب محکمہ آفات پنجاب (PDMA) نے صوبے کے مختلف اضلاع کے لیے ایک اور بڑا بارشوں کا الرٹ جاری کیا ہے۔ حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئے مغربی ہواؤں کے نظام کے داخل ہونے سے یکم اکتوبر سے سات اکتوبر تک پنجاب کے کئی علاقوں میں مسلسل بارشیں ہوں گی جن کی شدت سے برساتی نالوں اور چھوٹی ندیوں میں طغیانی کا امکان بڑھ سکتا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق جمعرات کی رات سے صوبے کے شمالی اور وسطی اضلاع میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا، جس میں لاہور، راولپنڈی، مری، گلیات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ اور قصور شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع ملتان، بہاولپور، بہاولنگر، راجن پور اور رحیم یار خان میں بھی گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
حکام نے خاص طور پر مری، گلیات اور راولپنڈی کے پہاڑی علاقوں کے لیے انتباہ جاری کیا ہے، جہاں برساتی نالوں میں پانی کی سطح اچانک بڑھ سکتی ہے۔ اسی لیے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہائی الرٹ رہیں اور ضلعی سطح پر تمام متعلقہ محکموں کو ہم آہنگی کے ساتھ تیار رکھا جائے۔ ان محکموں میں زراعت، صحت، بلدیات، آبپاشی، جنگلات، لائیوسٹاک اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں۔
عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بلا ضرورت سفر سے گریز کریں، ضلعی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں اور ریسکیو اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ ہنگامی صورت حال میں پی ڈی ایم اے کی ہیلپ لائن 1129 پر فوری رابطہ کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔
یہ نیا بارشوں کا الرٹ اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں حالیہ طوفانی بارشوں اور فلیش فلڈز سے ہزاروں خاندان متاثر ہو چکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی رپورٹ کے مطابق اب تک 1,006 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جن میں 275 بچے، 568 مرد اور 163 خواتین شامل ہیں۔
سب سے زیادہ جانی نقصان خیبر پختونخوا میں ہوا ہے جہاں 504 اموات رپورٹ ہوئیں۔ ان میں 90 بچے، 338 مرد اور 76 خواتین** شامل ہیں۔ پنجاب میں بھی صورتحال سنگین ہے جہاں 304 اموات ہوئیں جن میں 110 بچے شامل ہیں۔ پنجاب ہی میں سب سے زیادہ زخمی افراد بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن کی تعداد 661 ہے، جن میں 200 بچے، 258 مرد اور 203 خواتین شامل ہیں۔
سندھ میں 80 افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے 35 بچے تھے، جبکہ زخمیوں کی تعداد 87 رہی۔ بلوچستان میں 30 افراد لقمہ اجل بنے، جن میں سے 20 بچے شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں 41 اموات اور آزاد کشمیر میں 38 اموات رپورٹ ہوئیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی 9 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت بچے تھے۔
ملک بھر میں اب تک 1,063 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں 321 بچے، 450 مرد اور 292 خواتین شامل ہیں۔ زخمیوں کی بڑی تعداد نے اسپتالوں اور طبی سہولیات پر دباؤ بڑھا دیا ہے، اور ایمرجنسی وارڈز مسلسل متاثرین سے بھرے ہوئے ہیں۔
ریسکیو اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن بارشوں اور سیلاب کی شدت نے حکام کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے۔ کئی دیہات اور قصبے ابھی تک امداد کے منتظر ہیں جہاں گھر تباہ اور کھیت برباد ہو چکے ہیں۔ متاثرہ خاندان عارضی پناہ گاہوں میں گزر بسر کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں افراد اپنی روزگار کی راہیں کھو چکے ہیں۔
ماہرین معیشت خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے یہ سیلاب نہ صرف انسانی جانوں کو نگل رہے ہیں بلکہ ملک کی کمزور معیشت کے لیے بھی بڑا خطرہ ہیں۔ کپاس، گندم اور دیگر فصلیں تباہ ہو رہی ہیں، مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور سڑکوں و پلوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اب جب پنجاب کے مختلف اضلاع میں مزید بارشوں کی پیش گوئی ہو رہی ہے، خدشہ ہے کہ امدادی کام مزید متاثر ہوں گے، سڑکیں ٹوٹ سکتی ہیں، رسد میں رکاوٹ آ سکتی ہے اور مزید خاندان بے گھر ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے پی ڈی ایم اے نے شہریوں کو بار بار یاد دہانی کرائی ہے کہ محتاط رہیں اور اپنی جانوں کو محفوظ رکھنے کو اولین ترجیح دیں۔
پنجاب ایک نئے چیلنج کے لیے تیار ہو رہا ہے، جبکہ حالیہ تباہی کی یادیں ابھی تازہ ہیں۔ حکومت اور عوام دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اس مشکل گھڑی کا سامنا کرنا ہوگا۔
