پاکستان نے اپنی ماہی گیری کی صنعت کو عالمی پائیداری کے معیار سے ہم آہنگ کرنے کی ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے سمندری حیات کے تحفظ کے لیے 9 کروڑ روپے (تقریباً 3 لاکھ 20 ہزار ڈالر) مالیت کا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کا مقصد جھینگا پکڑنے والے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنسنے والے خطرے سے دوچار سمندری کچھوؤں کو بچانا ہے۔
یہ منصوبہ وفاقی وزارتِ بحری امور کے زیرِ اہتمام وزیر محمد جنید انور چوہدری نے متعارف کرایا، جس کا بنیادی ہدف ایک ایسا توازن قائم کرنا ہے جس میں ماحولیاتی تحفظ اور برآمدی ترقی دونوں کو یکجا کیا جا سکے۔
اس پروگرام کا مرکزی نکتہ ٹرٹل ایکسکلوڈر ڈیوائسز (TEDs) کی تنصیب ہے — یہ ایک مخصوص دھاتی یا فائبر سے بنی جالی ہوتی ہے جو جھینگا پکڑنے والے جال کے اندر نصب کی جاتی ہے۔ اس جالی کا ڈھانچہ اتنا چوڑا ہوتا ہے کہ بڑی سمندری مخلوقات جیسے کچھوے اور ڈولفن وغیرہ آسانی سے باہر نکل سکیں، جبکہ چھوٹی مچھلیاں اور جھینگے جال کے آخر تک پہنچ جائیں۔ اس طرح جھینگوں کی مقدار میں کمی نہیں آتی، مگر قیمتی سمندری حیات غیر ضروری طور پر ہلاک ہونے سے بچ جاتی ہے۔
منصوبے کے تحت حکومت ماہی گیروں کو یہ ڈیوائسز مفت فراہم کرے گی، ان کی تنصیب کے لیے تربیت دے گی، اور ایک ڈیٹا مانیٹرنگ نظام قائم کرے گی جس سے جال کی کارکردگی، جھینگا پیداوار، اور TED کے عملی اثرات کا باقاعدہ جائزہ لیا جا سکے گا۔ تربیتی ورکشاپس، عملی مظاہرے، اور کشتیوں پر رہنمائی فراہم کی جائے گی تاکہ عملہ صحیح طریقے سے ان آلات کو استعمال اور برقرار رکھ سکے۔
وفاقی وزیر جنید انور چوہدری کے مطابق پاکستان اس وقت جھینگا تقریباً 2 امریکی ڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت کرتا ہے، جو عالمی معیار سے کافی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان عالمی سرٹیفکیشن اور پائیدار ماہی گیری کے اصولوں پر عمل کرے تو یہی قیمت 6 ڈالر فی کلو تک بڑھ سکتی ہے، جس سے برآمدات میں تین گنا اضافہ ممکن ہے۔ فی الحال پاکستان کے جھینگا برآمدات کا حجم تقریباً 10 کروڑ ڈالر سالانہ ہے، مگر بہتر سرٹیفکیشن سے یہ حجم امریکہ، یورپی یونین، اور خلیجی ریاستوں جیسے منافع بخش بازاروں تک وسیع کیا جا سکتا ہے۔
وزیر نے واضح کیا کہ 100 فیصد TED کے استعمال کو یقینی بنایا جائے گا اور اس پر سخت نگرانی ہوگی۔ اگر کسی سطح پر خلاف ورزی پائی گئی تو یہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ عالمی منڈی میں سمندری مصنوعات کے لیے ٹریس ایبلٹی (traceability) یعنی جانچ پڑتال کا نظام سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔ غیر مطابقت کی صورت میں برآمدی اجازتیں محدود یا معطل کی جا سکتی ہیں۔
یہ منصوبہ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کے لحاظ سے اہم ہے بلکہ پاکستان کے لیے معاشی اعتبار سے بھی ایک موقع ہے۔ امریکہ نے اگست 2025 میں چار سالہ پابندی ختم کرتے ہوئے پاکستان کی سمندری مصنوعات کی درآمد دوبارہ بحال کی تھی، جب امریکی ماہرین نے اطمینان ظاہر کیا کہ پاکستانی ماہی گیری کے طریقے اب عالمی ماحولیاتی اصولوں پر پورے اترتے ہیں۔ اب اس نئی اسکیم کے ذریعے پاکستان اس اعتماد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی نئی پابندی عائد نہ ہو۔
دنیا بھر میں جھینگا پکڑنے کے عمل سے سمندری کچھوؤں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ کچھوے جھینگا جالوں میں پھنس کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ چونکہ کچھوے سانس لینے کے لیے سطح پر آتے ہیں، اس لیے وہ جال میں زیادہ دیر تک پھنسے رہنے پر دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ اسی لیے 1980 کی دہائی میں امریکہ نے ٹرٹل ایکسکلوڈر ڈیوائسز کے استعمال کو لازمی قرار دیا تھا۔ بعد میں عالمی قوانین کے مطابق، کسی بھی ملک سے درآمد ہونے والے جھینگے تبھی امریکی منڈی میں داخل ہو سکتے ہیں جب وہ بھی اسی طرح کے آلات استعمال کرے۔
اسی تناظر میں کئی ممالک نے اپنے ماہی گیری کے طریقے جدید بنانے شروع کیے تاکہ ان کی برآمدات عالمی قوانین کے مطابق رہیں۔ موجودہ دور میں مختلف ڈیزائن کے TEDs تیار کیے جا چکے ہیں جو تجربات میں 97 فیصد تک کچھوؤں کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں جبکہ جھینگوں کی پیداوار پر بہت معمولی اثر پڑتا ہے۔ تاہم حقیقی دنیا میں ان کی کارکردگی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ انہیں کتنی درستگی سے نصب اور برقرار رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں یہ پہلا جامع منصوبہ ہے جو سرکاری اور نجی شعبوں کی شراکت سے چلایا جا رہا ہے۔ اس میں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP)، پاکستان فشریز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (PAKFEA)، سندھ ٹرالر اونرز اینڈ فشریز ایسوسی ایشن (STOFA) اور کراچی فش ہاربر اتھارٹی جیسے ادارے شامل ہیں۔ ان تمام کا مقصد نہ صرف کچھوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے بلکہ ماہی گیروں کو اس تبدیلی کا حصہ بنانا ہے تاکہ وہ ماحولیاتی پالیسیوں کے ساتھ معاشی فائدے بھی حاصل کر سکیں۔
پاکستان پہلے ہی متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، عمان اور دیگر خلیجی ممالک کو جھینگا اور دیگر سمندری مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ ان ممالک میں پائیدار ماہی گیری کی طلب بڑھ رہی ہے، اس لیے پاکستان کا یہ قدم نہ صرف عالمی ساکھ کو بہتر بنائے گا بلکہ خلیجی منڈیوں میں اس کا حصہ مزید مستحکم کرے گا۔
اس منصوبے کی کامیابی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ماہی گیروں کو قائل کرنا ہے۔ کئی کشتی مالکان کا خیال ہے کہ یہ آلات جھینگا کم پکڑتے ہیں یا جال کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے حکومت نے عملی تربیت، اعداد و شمار اور میدان میں تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ TEDs سے پیداوار میں کمی نہیں آتی بلکہ ان کے استعمال سے جال زیادہ دیر تک قابلِ استعمال رہتے ہیں۔
اگر یہ منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھتا ہے تو پاکستان کے لیے ایک نیا باب کھل سکتا ہے — ایک ایسا باب جس میں ماحولیاتی تحفظ، اقتصادی استحکام، اور عالمی اعتماد یکجا ہوں۔ اس سے پاکستان اپنی ماہی گیری کو پائیدار، جدید اور عالمی معیارات کے مطابق ڈھال سکتا ہے، جبکہ سمندری کچھوؤں اور دیگر نایاب جانداروں کے تحفظ کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کر سکتا ہے۔
یہ اقدام پاکستان کی ماحولیاتی ذمہ داری اور معاشی ترقی دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر مکمل عزم، تربیت اور نگرانی کے ساتھ اس پر عملدرآمد کیا گیا تو پاکستان نہ صرف عالمی منڈی میں اپنی موجودگی مضبوط کرے گا بلکہ بحیرۂ عرب کی حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنانے میں بھی نمایاں کردار ادا کرے گا۔
