پشاور سے موصول ہونے والی تازہ تفصیلات کے مطابق پاکستان میں قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کے نتیجے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ایک بار پھر واضح اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس صورتحال پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعہ کے روز پشاور میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی ایکشن پلان، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر دستخط کیے تھے، اگر اپنی روح کے مطابق نافذ کیا جاتا تو آج دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع نہ ملتا۔
ان کے مطابق، غیر مؤثر عمل درآمد، سیاسی عزم کی کمی اور بعض علاقوں میں انتظامی سستی نے ملک کے لیے نئے خطرات کو جنم دیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خیبرپختونخواہ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ رہا ہے۔ اس صوبے نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سینکڑوں بڑے آپریشنز، ہزاروں شہادتیں اور اربوں روپے کا مالی نقصان برداشت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2021 کے بعد دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر مختلف علاقوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کیں، تاہم سیکیورٹی فورسز نے اس بار زیادہ مربوط اور جارحانہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دشمن کو سخت نقصان پہنچایا۔ ان کے مطابق، گزشتہ چند برسوں میں جتنے دہشت گرد مارے گئے، وہ پچھلے نو سالوں کے مجموعی اعداد و شمار سے زیادہ ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ فورسز اب زیادہ منظم اور بہتر استعداد کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ 2024 کے دوران خیبرپختونخواہ میں مجموعی طور پر 14 ہزار 500 سے زائد آپریشنز کیے گئے، جن میں مختلف نوعیت کی کارروائیاں شامل تھیں۔
ان کارروائیوں کے دوران 917 فوجی اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 516 عام شہری بھی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے "فتنہ الخوارج” کی اصطلاح ان دہشت گرد گروہوں کے لیے متعین کی ہے جو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور اس جیسے نیٹ ورکس سے وابستہ ہیں۔ جنرل چوہدری کے مطابق، یہ گروہ ریاستِ پاکستان کے دشمن ہیں اور اسلام کے نام پر فتنہ پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کا آغاز خیبرپختونخواہ کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کیا، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جان و مال کی قربانی دے کر ریاستی اداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان علاقوں کے عوام کا عزم نہ ہوتا تو دہشت گردی کی یہ جنگ کبھی ممکن نہ ہوتی۔ ان کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ محض بندوقوں کی لڑائی نہیں بلکہ یہ نظریات، معیشت اور عوامی اعتماد کی جنگ ہے، اور اس میں کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ریاست اور عوام ایک سمت میں کھڑے ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2024 میں سیکیورٹی فورسز نے نہ صرف خیبرپختونخواہ بلکہ بلوچستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں بھی ہزاروں آپریشنز کیے، جن میں مجموعی طور پر نو سو سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ انٹیلیجنس بیسڈ کارروائیوں کی تعداد 59 ہزار سے تجاوز کر گئی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ریاستی ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کسی بھی قیمت پر ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ خطرات اب بھی موجود ہیں کیونکہ دہشت گردی کے نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر مربوط ہیں اور بیرونی حمایت کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ قومی ایکشن پلان کے نکات پر غیر متوازن عمل درآمد نے دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ سانس لینے کا موقع دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں جب قومی ایکشن پلان تیار کیا گیا، تو اس کے 20 نکات کا مقصد دہشت گردی کے تمام پہلوؤں کا خاتمہ تھا، جن میں مدارس کی اصلاح، انتہا پسندانہ بیانیے کی روک تھام، اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی فعالی شامل تھیں۔ مگر افسوس کہ سیاسی عدم دلچسپی اور ادارہ جاتی کمزوریوں کے باعث یہ نکات عملی طور پر وہ نتائج نہیں دے سکے جن کی توقع کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ صرف عسکری طاقت سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے سیاسی استحکام، معاشی خوشحالی اور تعلیمی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ "جب تک نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع، انصاف کی فراہمی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ نہیں دیا جائے گا، دہشت گردی کی سوچ کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا،” جنرل چوہدری نے کہا۔
خیبرپختونخواہ کے مختلف اضلاع خصوصاً شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، اور خیبر میں حالیہ مہینوں میں فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے آپریشن کیے۔ کئی اعلیٰ سطحی عسکریت پسند مارے گئے، جب کہ دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے تباہ کیے گئے۔ مقامی عوام کی نشاندہی اور تعاون سے کئی ایسے نیٹ ورکس کو بھی توڑا گیا جو سرحد پار سے ہونے والی سرگرمیوں سے منسلک تھے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اب اپنی سلامتی کی پالیسیوں میں طویل المدتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا، تاکہ نہ صرف دہشت گردی کے خطرات کا خاتمہ ہو بلکہ اس کے اسباب کو بھی ختم کیا جا سکے۔ "یہ جنگ صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی، یہ جنگ انصاف، تعلیم، اور شفاف طرزِ حکمرانی سے جیتی جائے گی۔”
پریس کانفرنس کے اختتام پر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاک فوج اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پوری قوم کے تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کے عوام نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے ملک اور اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
