اسلام آباد اور راولپنڈی آج ایک غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال کے گواہ بنے، جہاں زندگی کے تمام معمولات منجمد ہو گئے، سڑکیں سنسان دکھائی دیں، بازار بند رہے، اور خوف و تشویش کا ماحول ہر طرف پھیل گیا۔ دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر میں حکام نے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا، جس کے تحت تمام داخلی و خارجی راستے سیل کر دیے گئے، عوامی نقل و حرکت محدود کر دی گئی، اور مواصلاتی رابطے معطل کر دیے گئے۔ شہری اپنے گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے، جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کے ہر مرکزی مقام پر الرٹ کھڑے تھے۔
یہ تمام اقدامات اس وقت کیے گئے جب مذہبی و سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے امریکی سفارت خانے کے سامنے ایک اسرائیل مخالف مظاہرے کا اعلان کیا۔ حکومت کو خدشہ تھا کہ نمازِ جمعہ کے بعد پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے، جس سے تصادم کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس تناظر میں پولیس نے جمعے کی صبح ہی ملتان روڈ، مری روڈ، فیض آباد، اور دیگر مرکزی شاہراہوں پر بڑی تعداد میں نفری تعینات کر دی۔
ذرائع کے مطابق جمعرات کی شب پولیس نے لاہور میں تحریک لبیک کے ہیڈکوارٹر پر چھاپہ مار کر جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم کارکنوں نے سخت مزاحمت کی، پولیس پر پتھروں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا، جبکہ پولیس نے جوابی کارروائی میں آنسو گیس کے شیل داغے۔ اس موقع پر کئی اہلکار زخمی ہوئے اور کچھ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بعد ازاں وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس نے چھاپے کے دوران کارکنوں سے گیس ماسک، کیمیکل اور دیگر اشیاء برآمد کی ہیں، جو مظاہرے کے دوران استعمال کرنے کے ارادے سے جمع کی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک نے احتجاج کے لیے کسی قسم کی باضابطہ اجازت نامہ حاصل نہیں کیا تھا اور حکومت ایسے غیر قانونی اقدامات کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔
انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے عوامی اجتماعات، احتجاجی جلوسوں، ریلیوں اور تقاریر پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر بھی عارضی پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی کو روکا جا سکے۔
صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب جمعے کی صبح سے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے بیشتر داخلی راستوں پر کنٹینرز اور بھاری گاڑیاں کھڑی کر کے ٹریفک مکمل طور پر روک دی گئی۔ ایم تھری موٹر وے کو عبدالحکیم سے لاہور کی سمت بند کر دیا گیا، جبکہ ایم ٹو موٹر وے پر پِنڈی بھٹیاں سے اسلام آباد جانے والی سڑک بھی سیل کر دی گئی۔ اسی طرح نیشنل ہائی وے این فائیو پر میان چنوں ٹول پلازہ سے لاہور کی جانب سفر ناممکن ہو گیا۔
فیض آباد انٹرچینج پر درجنوں ٹرالر اور کنٹینر رکھ کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان آمد و رفت منقطع کر دی گئی۔ صرف چند مخصوص مقامات، جیسے چکری انٹرچینج، کورال چوک اور دولتالی موڑ پر ایک ایک لائن کھولی گئی تاکہ ہنگامی صورت حال میں ایمبولینس یا ضروری گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت دی جا سکے۔
ادھر، راولپنڈی پولیس نے چھ ہزار سے زائد اہلکاروں کو شہر کے مختلف علاقوں میں تعینات کر رکھا ہے۔ سٹی پولیس آفیسر سید خالد حمدانی خود تمام آپریشنز کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اعلیٰ افسران کو اسلحہ سے لیس کیا گیا ہے، جبکہ دیگر اہلکاروں کو آنسو گیس گنز، ربڑ کی گولیاں اور شاٹ گنز فراہم کی گئی ہیں۔ مری روڈ، رحیم آباد، گلزارِ قائد، ساون پل، عدیالہ روڈ اور راول روڈ پر بھاری نفری موجود ہے۔ اس کے علاوہ تیرہ خصوصی پولیس یونٹس اور تربیت یافتہ نشانہ بازوں کو شالیمار چوک سے فیض آباد تک تعینات کر دیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
میٹرو بس سروس مکمل طور پر بند ہے، اور سرکاری ٹرانسپورٹ غائب۔ مری روڈ اور دیگر اہم شاہراہوں کی بندش کے باعث شہریوں کو متبادل راستوں سے سفر کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رکشے اور موٹر سائیکلیں چھوٹی گلیوں میں پھنس گئیں، اور اسپتالوں تک مریضوں کی رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی۔
شہر بھر میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں، جبکہ نجی اداروں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آن لائن کام کو ترجیح دیں۔ عدالتوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی، ضلعی عدالتوں کے بیشتر کمرے خالی رہے، اور جج صاحبان کے مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی گئی۔ پولیس اڈیالہ جیل سے قیدیوں کو عدالتوں میں پیش نہ کر سکی، اور دن گیارہ بجے تک کچہری کا علاقہ مکمل طور پر سنسان دکھائی دیا۔
سینیٹ کا اجلاس بھی ملتوی کر دیا گیا، کیونکہ ارکان پارلیمنٹ میں سے اکثر شہر بند ہونے کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس نہ پہنچ سکے۔ وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ کے مطابق سڑکوں کی بندش اور مذہبی جماعت کی سرگرمیوں کے سبب اجلاس کے لیے درکار کوئرم مکمل نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔
اس ساری داخلی افراتفری کے دوران بین الاقوامی سطح پر ایک اہم پیش رفت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ جمعرات کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک جنگ بندی معاہدہ طے پایا، جس کے تحت پہلے مرحلے میں اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت ہوا ہے، جسے اسلام آباد نے "مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے ایک تاریخی موقع” قرار دیا ہے۔ تاہم تحریک لبیک نے اس منصوبے کو "فلسطینی عوام کے ساتھ ناانصافی” قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
اس احتجاجی کال کے بعد ملک کے سب سے اہم شہروں میں خوف و بے یقینی کی فضا پھیل گئی۔ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، دکانیں بند، گلیاں سنسان، اور سڑکوں پر بھاری نفری تعینات نظر آئی۔ عوام کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہی ہے بلکہ ملکی امن و استحکام کے لیے بھی تشویشناک ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی اس روز ایک ایسے قلعے میں تبدیل ہو گئے جہاں عوامی زندگی، آزادیٔ نقل و حرکت، اور معمولاتِ روزگار سب کچھ رُک چکا تھا۔ ایک طرف مشرقِ وسطیٰ میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں، دوسری طرف پاکستان کے دل میں مذہبی و سیاسی تناؤ کا ایسا طوفان برپا ہے جس نے دارالحکومت کو غیر معمولی سناٹے میں جکڑ لیا ہے۔ عوام کے چہروں پر خوف، بے یقینی، اور بے بسی کے آثار نمایاں ہیں—ایک ایسا منظر جو اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی اختلافات اور مذہبی تحریکیں جب سڑکوں پر آتی ہیں، تو پورے نظامِ زندگی کو مفلوج کر دیتی ہیں۔
