خیبر پختونخوا کی سیاست میں کئی دنوں کی ہلچل اور غیر یقینی صورتِ حال کے بعد آخرکار صوبے کو نیا وزیراعلیٰ مل گیا۔ سہیل آفریدی نے گورنر ہاؤس پشاور میں ایک پُروقار تقریب میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، جہاں گورنر فیصل کریم کنڈی نے ان سے حلف لیا۔ اس تقریب نے صوبے میں قیادت کی تبدیلی کے اس مرحلے کو باضابطہ طور پر مکمل کر دیا جو پچھلے کئی دنوں سے سیاسی بحث کا مرکز بنا ہوا تھا۔
یہ تقریب گورنر ہاؤس کے مرکزی ہال میں منعقد ہوئی جس میں اہم سیاسی و انتظامی شخصیات نے شرکت کی۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی، آئی جی پولیس، چیف سیکریٹری، اور پاکستان تحریکِ انصاف کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی اس موقع پر موجود تھے۔ تقریب کے پنڈال میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد جمع تھی جو مسلسل نعروں اور خوشی کے اظہار سے فضا کو گرم کیے ہوئے تھی۔
یہ سیاسی تبدیلی دراصل اس وقت شروع ہوئی جب چند روز قبل سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے بعد ازاں تصدیق کی کہ چیئرمین عمران خان نے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کرنے کی ہدایت دی ہے۔ تاہم، استعفیٰ کے عمل میں پیدا ہونے والے اختلافات نے اس معاملے کو پیچیدہ بنا دیا۔
گورنر ہاؤس کے مطابق 8 اور 11 اکتوبر کو علی امین گنڈاپور کے دو الگ استعفے موصول ہوئے جن پر دستخط مختلف دکھائی دیے۔ اس تضاد کے باعث گورنر فیصل کریم کنڈی نے دونوں استعفے اعتراض کے ساتھ واپس کر دیے اور وضاحت کے لیے علی امین گنڈاپور کو 15 اکتوبر کو گورنر ہاؤس طلب کیا۔ بعد ازاں گورنر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اعلان کیا کہ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ اعتراض کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا ہے۔
علی امین گنڈاپور نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں استعفوں پر ان کے اصل دستخط موجود ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے الگ ہونے کے فیصلے پر قائم ہیں۔ اسی دوران 13 اکتوبر کو اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سہیل آفریدی نے واضح اکثریت سے 90 ووٹ حاصل کر کے خیبر پختونخوا کے 30ویں وزیراعلیٰ کا عہدہ اپنے نام کر لیا۔
تاہم، گورنر فیصل کریم کنڈی نے اس انتخاب کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک سابق وزیراعلیٰ کا استعفیٰ باضابطہ طور پر منظور نہیں ہوتا، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی اعتبار سے درست نہیں مانا جا سکتا۔ اس آئینی تنازعے کے بعد تحریک انصاف نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے حلف برداری کے عمل کے لیے ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی۔
پشاور ہائیکورٹ نے فوری سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ گورنر خیبر پختونخوا 15 اکتوبر شام چار بجے تک نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لیں، اور اگر گورنر نے ایسا نہ کیا تو اسپیکر صوبائی اسمبلی کو اختیار ہوگا کہ وہ حلف دلائیں۔ عدالت کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی گورنر فیصل کریم کنڈی کو عدالتی حکم پر عمل کرنے کی ہدایت دی۔
عدالتی حکم کی روشنی میں گورنر فیصل کریم کنڈی کراچی سے پشاور پہنچے اور اگلے ہی روز گورنر ہاؤس میں عدالتی فیصلے کے مطابق سہیل آفریدی سے حلف لیا۔ اس طرح صوبے میں کئی دنوں سے جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہو گیا اور آئینی عمل ایک بار پھر بحال ہو گیا۔
یہ پیش رفت نہ صرف صوبے میں سیاسی استحکام کی علامت بنی بلکہ اس نے عدلیہ کے کردار کو بھی اجاگر کیا جس نے آئینی تسلسل کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سہیل آفریدی کا حلف اٹھانا تحریک انصاف کے لیے صرف قیادت کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک علامتی فتح بھی قرار دیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے جماعت نے اپنی سیاسی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
اب جب کہ صوبے کی قیادت نئی سمت میں بڑھ رہی ہے، سہیل آفریدی کے سامنے انتظامی اصلاحات، قانون و انصاف، ترقیاتی منصوبے اور سیاسی ہم آہنگی جیسے کئی چیلنجز موجود ہیں۔ تاہم، ان کی حلف برداری جس طرح عدالتی مداخلت اور آئینی عمل کے ذریعے ممکن ہوئی، وہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان میں جمہوری ادارے تمام دباؤ کے باوجود نظام کو رواں رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
