اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے بھارت کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا، جس کے جواب میں پاک فوج نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں بھرپور اور مؤثر کارروائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر جارحیت برداشت نہیں کرے گا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل اور تاریخی سرحدی تعلق ہے، پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی دہائیوں تک میزبانی کی، مگر بدقسمتی سے آج افغان دہشت گرد ہماری افواج، پولیس اور شہریوں پر حملے کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2018 میں دہشت گردی ختم ہو چکی تھی، لیکن اس کے بعد کی حکومت نے انہی دہشت گردوں کو واپس لا کر آباد کیا، جس کا خمیازہ آج ملک بھگت رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کابینہ نے دہشت گردی کی ہر شکل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ پاکستان پر حملے کے وقت افغان وزیر خارجہ نئی دہلی میں موجود تھے، اور یہ حملہ بھارت کی سرپرستی میں کیا گیا۔ ان کے مطابق، پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، اس لیے دفاعی کارروائی کرنا ناگزیر بن گئی۔
وزیراعظم نے بتایا کہ افغانستان کی درخواست پر 48 گھنٹے کے لیے جنگ بندی کی گئی ہے جبکہ قطر سمیت دوست ممالک صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سیز فائر کا مقصد صرف مہلت حاصل کرنا ہوا تو پاکستان مزید برداشت نہیں کرے گا۔‘‘
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان افغانستان سے جائز اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ’’ہم نے امن کے لیے ہاتھ بڑھایا، مگر جارحیت کی صورت میں جواب دینا ہمارا حق ہے۔
وزیراعظم نے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے کہا کہ پاکستان نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اور دنیا نے اس کوشش کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ شرم الشیخ میں معاہدے کے بعد فلسطینی عوام نے خوشی کا اظہار کیا اور جنگ بندی پر اللہ کا شکر ادا کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین کے قیام کی جدوجہد میں پاکستان ہمیشہ ساتھ رہا ہے اور آواز بلند کرتا رہے گا۔ انہوں نے ان عناصر پر تنقید کی جو غزہ کے انسانی المیے پر سیاست کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پانے پر اپنی ٹیم کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہونا چاہیے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک قرضوں سے نجات حاصل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ راستہ مشکل ضرور ہے، مگر جب پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوگا تو عالمی سطح پر ہماری آواز میں وزن ہوگا۔
