لاہور اور اس کے گرد و نواح میں سموگ کی صورت میں پھیلتی ہوئی دھند نے روزمرہ زندگی کو اس قدر متاثر کر دیا ہے کہ شہری صبح ماسک پہن کر گھروں سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ فضا میں اس قدر دھواں اور باریک ذرات شامل ہو چکے ہیں کہ سانس لینا تک مشکل محسوس ہونے لگا ہے۔ لوگ سڑکوں پر چلتے ہوئے آنکھوں میں چبھن اور گلے میں خراش کی شکایت کرتے ہیں، جبکہ شہری علاقوں میں صاف ہوا اب ایک نایاب چیز بنتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف مقامی آلودگی کا نتیجہ نہیں بلکہ بھارت میں دیوالی کے موقع پر آتش بازی اور فصلوں کے بعد کھیت جلانے سے اٹھنے والا دھواں بھی سرحد پار کر کے مشرقی پنجاب کے شہروں تک پہنچ چکا ہے، جس نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا ہے۔
Punjab Air Quality Monitoring Network کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور کا Air Quality Index 318 تک پہنچا جبکہ ڈیرہ غازی خان نے 450 کی خطرناک حد عبور کر لی۔ شیخوپورہ، فیصل آباد اور گوجرانوالہ بھی شدید آلودگی کی لپیٹ میں ہیں جہاں AQI کی ریکارڈ سطح بالترتیب 311، 281 اور 268 رہی۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں آلودگی کی شدت مختلف دیکھی گئی جہاں کہنہ میں 430 جیسی انتہائی تشویشناک سطح نوٹ کی گئی، شاہدرہ میں 379، برکی روڈ پر 344، ملتان روڈ پر 336، جبکہ ڈی ایچ اے فیز 6 میں 327 ریکارڈ ہوا۔ ان نمبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کا کوئی حصہ اس بحران سے محفوظ نہیں رہا۔
عالمی فضائی نگرانی پلیٹ فارم IQAir نے بھی لاہور کو دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا، جہاں آلودگی نئی دہلی سے بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ یہ درجہ بندی نہ صرف خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ اس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہری مراکز ماحولیاتی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سرد موسم کے آغاز کے ساتھ ہی temperature inversion کا عمل ہوا کو زمین کے قریب قید کر دیتا ہے اور جب دھواں اوپر نہیں جا پاتا تو یہی سموگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
حکومت پنجاب نے آلودگی روکنے کے لیے رات کے اوقات میں کارروائیاں شروع کرنے اور high-risk زونز میں Anti-Smog Guns استعمال کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تھوکر اور ملحقہ علاقوں میں پانی کے اسپرے کی فوٹیجز بھی جاری کی گئیں، لیکن شہریوں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا اثر صرف تصویروں میں نظر آتا ہے، حقیقت میں فضا میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوا۔ Environment Protection Department کا کہنا ہے کہ آلودہ ہوا کے بڑے بڑے بادل امرتسر، لدھیانہ اور ہریانہ سے داخل ہو کر لاہور، ملتان، ساہیوال، رحیم یار خان، بہاولپور اور فیصل آباد کو متاثر کر رہے ہیں، اور آنے والے دنوں میں صبح اور شام کے وقت آلودگی کی شدت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ حیوانیات کے سربراہ اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر ذوالفقار علی نے خبردار کیا ہے کہ لاہور اب مستقل طور پر دنیا کے ان شہروں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جہاں ہوا کا معیار انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ AQI جب 200 سے اوپر جاتا ہے تو اسے صحت کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے، لیکن لاہور میں یہ سطح 400 کے قریب پہنچ رہی ہے جو دل، پھیپھڑوں اور سانس کے مریضوں کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار کے مطابق یہ بحران صرف سرحد پار دھوئیں کا نتیجہ نہیں بلکہ مقامی سطح پر ہونے والی کوتاہیوں نے بھی صورتحال کو خراب کیا ہے۔
شہر میں چلتی ہوئی پرانی گاڑیاں، صنعتی دھواں، بغیر کور کے تعمیراتی مقامات اور کھیتوں میں باقی رہ جانے والے فصلوں کے ڈھیروں کو آگ لگانا سب مل کر فضا کو زہریلا بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ WHO کے مقرر کردہ محفوظ معیار کے مقابلے میں لاہور کی فضا 21 گنا زیادہ آلودہ ہے۔
شہریوں کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ برکی روڈ کی رہائشی امِ کلثوم نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میڈیا پر تو سرگرم نظر آتی ہے، مگر زمین پر صورتحال جوں کی توں ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ خود ہی گھر کے دروازے بند کر کے، گیلی چادریں لٹکا کر اور ماسک پہن کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ سرکاری مشینری زیادہ تر بیانات تک محدود ہے۔ عبداللہ نامی نوجوان نے کہا کہ شہر بھر میں کنسٹرکشن سائٹس پر کوئی پابندی نہیں، دھول اڑتی ہے اور کوئی کارروائی نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ دھواں چھوڑتے رکشے اور موٹر سائیکلیں بدستور سڑکوں پر رواں دواں ہیں جن پر کوئی نگرانی دکھائی نہیں دیتی۔ ایک اور شہری رابعہ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ حکام شاید اسی وقت متحرک ہوں گے جب اسکول بند کرنے کا فیصلہ سامنے آ جائے گا کیونکہ عموماً یہی آسان راستہ اپنایا جاتا ہے۔
صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ماحولیاتی ضابطوں پر عمل کریں اور حکومتی اقدامات میں تعاون کریں، تاہم عوامی تاثر کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جب تک بڑے آلودگی کے ذرائع، جیسے صنعتی اخراج، کھلی جگہوں پر آگ لگانا اور دھواں چھوڑتی ٹرانسپورٹ پر سخت کارروائی نہیں ہوگی، صرف اپیلیں اور اسپرے سیزنل دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ EPA کی رپورٹ کے مطابق PM2.5 ذرات شہروں میں خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہ باریک ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ سانس کے راستے سیدھے خون میں شامل ہو جاتے ہیں اور دل و پھیپھڑوں کے نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ہسپتالوں میں کھانسی، دمہ اور سانس کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔
