اسلام آباد میں ملکی و بین الاقوامی سطح پر جاری مشاورت کے نتیجے میں یہ معاملہ اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ آیا پاکستان غزہ میں تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی استحکام فورس میں اپنی فوجی شمولیت کا باضابطہ اعلان کرے گا یا نہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت کا جھکاؤ اس فورس میں شرکت کی جانب ہے، تاہم اس فیصلے کا باضابطہ اعلان اعلیٰ سطح کی عسکری اور سیاسی مشاورت مکمل ہونے کے بعد متوقع ہے۔
یہ فورس دراصل اُس بین الاقوامی منصوبے کا حصہ ہے جو امریکی ثالثی میں طے پانے والے غزہ امن معاہدے کے تحت سامنے آیا۔ منصوبے کا مقصد غزہ میں پائیدار امن، داخلی استحکام، انسانی امداد کی فراہمی اور جنگ کے بعد کے حالات میں گورننس کو بحال کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ فورس زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی، جس میں انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، آذربائیجان، ترکیہ، قطر، مصر اور ممکنہ طور پر پاکستان کے اہلکار شامل ہوں گے۔
اسلام آباد میں ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کے درمیان تفصیلی مشاورت جاری ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی قیادت کے لہجے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ مثبت سمت میں جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان خود ان ابتدائی ممالک میں شامل تھا جنہوں نے گزشتہ برس کے آخر میں غزہ امن فریم ورک کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ حکام کے مطابق اس وقت پیچھے ہٹنا اس پالیسی سے انحراف کے مترادف ہوگا جس کے قیام میں خود پاکستان نے عملی کردار ادا کیا تھا۔
امریکی انتظامیہ، جو اس منصوبے کی روحِ رواں ہے، نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے فوجی اہلکار غزہ نہیں بھیجے گی، البتہ وہ مسلم ممالک کے تعاون سے ایک کثیرالقومی فورس کی تشکیل چاہتی ہے تاکہ غزہ کی داخلی سیکیورٹی، سرحدی نگرانی، اور حماس کے غیر مسلح ہونے کے عمل کو عالمی قانونی دائرے میں لایا جا سکے۔ اسرائیل اس منصوبے کے کئی حصوں پر محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، خصوصاً ترکیہ کی ممکنہ شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سار نے کھلے عام کہا کہ ترکیہ کا کردار غیر موزوں ہے، جبکہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ کسی بھی غیر ملکی فورس کی اجازت دینے کا فیصلہ صرف اسرائیل کرے گا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی خارجہ و دفاعی کمیٹی کو دی گئی ایک خفیہ بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس بین الاقوامی استحکام فورس میں انڈونیشیا، آذربائیجان اور پاکستان کے اہلکار شامل ہوں گے، جو غزہ کی اندرونی سلامتی اور اسرائیل کی سرحدوں پر نگرانی کے فرائض انجام دیں گے۔ اس رپورٹ نے خطے میں نئی سفارتی بحث کو جنم دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر مصر اور اردن کے سرکاری دورے پر ہیں۔
ذرائع کے مطابق عاصم منیر کے ان دوروں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ان ممالک کی قیادت سے غزہ کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ اگرچہ فوجی ترجمان نے ان ملاقاتوں کو دوطرفہ دفاعی تعلقات کے فروغ سے تعبیر کیا ہے، لیکن پسِ پردہ موضوع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کے نفاذ سے متعلق تعاون پر مرکوز ہے۔ قاہرہ میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے دوران پاکستانی آرمی چیف نے مصر کے اس کردار کو سراہا جس کے تحت اس نے جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی میں مرکزی کردار ادا کیا۔
مصر، جو قطر اور امریکا کے ساتھ اس امن فریم ورک کا ایک کلیدی ثالث رہا ہے، نے 13 اکتوبر کو شرم الشیخ میں ہونے والے اس اجلاس کی میزبانی کی تھی جس میں امن معاہدے کے ابتدائی مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق مصری صدر نے پاکستان کے کردار کو مسلم دنیا کے مفادات کے تحفظ اور عالمی سطح پر امن کے فروغ میں "مثبت اور فعال” قرار دیا۔
اسی طرح اردن میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بادشاہ عبداللہ دوم اور چیئرمین جوائنٹ چیفس میجر جنرل یوسف احمد الحنیتی سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی خطے کے استحکام پر بات چیت ہوئی۔ اردنی قیادت نے پاکستان کی امن کوششوں کو سراہتے ہوئے اسے خطے میں استحکام کی علامت قرار دیا۔
پاکستان کے سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ اس ممکنہ شمولیت کے پیچھے محض سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی محرکات بھی ہیں۔ اسلام آباد کا ماننا ہے کہ چونکہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں طویل تجربہ رکھتا ہے — اور اب تک دنیا کے مختلف خطوں میں 40 سے زائد مشنز میں 2 لاکھ سے زیادہ اہلکار تعینات کر چکا ہے — اس لیے غزہ میں اس کا کردار فورس کی ساکھ بڑھانے اور عالمی سطح پر اس کی قانونی حیثیت مضبوط کرنے میں مددگار ہوگا۔
ایک سینئر سفارتی ذریعے کے مطابق "پاکستان کا امن فورسز میں حصہ لینا نہ صرف اس کے تاریخی کردار کا تسلسل ہے بلکہ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے اصولی مؤقف کو بھی تقویت دیتا ہے۔” ان کے مطابق اگر پاکستان اس فورس کا حصہ بنتا ہے تو یہ نہ صرف مسلم ممالک کے مابین عسکری تعاون کو فروغ دے گا بلکہ اسلامی دنیا میں قیادت کے تاثر کو بھی مضبوط کرے گا۔
تاہم کچھ حلقے اس ممکنہ فیصلے کو حساس سمجھتے ہیں۔ عوامی سطح پر ایک بڑا طبقہ، جو فلسطینی مزاحمت کے حق میں جذباتی وابستگی رکھتا ہے، ممکن ہے کہ امریکی سرپرستی میں تشکیل دی جانے والی اس فورس کو اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے طور پر دیکھے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اگر وہ اس فورس میں شامل ہوتا ہے تو یہ تعیناتی اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت ہو تاکہ قانونی اور اخلاقی حیثیت مضبوط رہے۔
اسلام آباد میں پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ اس فورس میں شرکت سے پاکستان کے لیے نئی سفارتی راہیں کھل سکتی ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات، جو افغانستان اور انسدادِ دہشت گردی کے معاملات میں برسوں کی کشیدگی کے بعد بتدریج بحال ہو رہے ہیں، اب اس شرکت سے مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔ یہ اقدام دفاعی تعاون، اقتصادی شراکت اور سفارتی اثر و رسوخ کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان کی شمولیت نہ صرف مسلم دنیا کے اتحاد کے پیغام کو تقویت دے گی بلکہ اسے عالمی امن فورمز پر ایک فعال اور متوازن ریاست کے طور پر مزید نمایاں کرے گی۔ تاہم، بعض ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ زمینی صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے، اور اگر فورس کے مینڈیٹ پر عالمی اتفاق نہ ہوا تو یہ اقدام پاکستان کو مشکل سیاسی پوزیشن میں بھی ڈال سکتا ہے۔
فی الوقت تمام نگاہیں اسلام آباد پر مرکوز ہیں جہاں اگلے چند دنوں میں یہ فیصلہ متوقع ہے کہ آیا پاکستان اس کثیرالقومی فورس میں باضابطہ شمولیت اختیار کرے گا یا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے کردار کا نیا باب ہوگا بلکہ فلسطینی سرزمین پر امن کے قیام کی عالمی کوششوں میں بھی ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
