کراچی :پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے جرمنی کی دو بڑی صنعتی کمپنیوں آر ڈبلیو ای (RWE) اور ہائیڈلبرگ سیمنٹ (Heidelberg Cement) کو باقاعدہ قانونی نوٹس بھجوا دیا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کی مالی ذمہ داری قبول کریں۔
کسانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر دسمبر تک ان کے نقصان کی تلافی نہ کی گئی تو وہ بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔یہ اقدام پاکستان میں ماحولیاتی انصاف کے لیے ایک اہم اور تاریخی پیشرفت سمجھا جا رہا ہے۔کسانوں کا مؤقف ہے کہ جرمن کمپنیاں دنیا کی ان چند بڑی کارپوریشنز میں شامل ہیں جو سب سے زیادہ کاربن اخراج اور ماحولیاتی آلودگی پھیلا کر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی ذمہ دار ہیں۔
کسان رہنما غلام شبیر سومرو نے اپنے بیان میں کہا ہم نے ماحولیاتی بحران پیدا نہیں کیا، لیکن ہم ہی اس کی قیمت اپنی زمینوں، فصلوں اور روزگار سے چکا رہے ہیں۔ اگر دنیا کے امیر ممالک اور ان کی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں تو انہیں ہمارے نقصان کی ذمہ داری بھی لینی چاہیے۔
سندھ کے کسانوں کے مطابق، 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے ان کی زرعی زمینیں مکمل طور پر تباہ کر دیں۔چاول اور گندم کی فصلیں ضائع ہو گئیں، پانی کے ذخائر آلودہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔کسانوں کا اندازہ ہے کہ صرف سندھ کے ان علاقوں میں جہاں ان کی زمینیں تھیں، 10 لاکھ یورو (تقریباً 30 کروڑ روپے) سے زائد کا مالی نقصان ہوا۔
عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق، سال 2022 میں پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثرہ ملک قرار پایا۔اسی سال شدید بارشوں اور سیلابوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب کر دیا، جس سے1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے،3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے،اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق، سندھ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثرہ تھا، جہاں بعض اضلاع تقریباً ایک سال تک زیر آب رہے۔ اس طویل تباہی نے مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا اور لاکھوں کسان اپنے واحد ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے۔
دوسری جانب، جرمن کمپنیوں آر ڈبلیو ای اور ہائیڈلبرگ سیمنٹ نے تصدیق کی ہے کہ انہیں پاکستانی کسانوں کا قانونی نوٹس موصول ہو چکا ہے، اور وہ اس معاملے کا جائزہ لینے کے عمل میں ہیں۔ابتدائی رپورٹس کے مطابق، دونوں کمپنیاں اپنے قانونی مشیروں کے ساتھ مل کر اس نوٹس کے اثرات اور ممکنہ بین الاقوامی مقدمے کی تیاری کا جائزہ لے رہی ہیں۔
ماحولیاتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف ایک مقامی تنازع نہیں بلکہ ایک عالمی پیغام ہےکہ ترقی پذیر ممالک کے کسان اب اپنی آواز عالمی سطح پر بلند کر رہے ہیں۔ماہر ماحولیات ڈاکٹر شازیہ لغاری کے مطابق اگر سندھ کے کسان یہ مقدمہ کامیابی سے آگے بڑھاتے ہیں تو یہ پوری دنیا میں ماحولیاتی انصاف کے نئے باب کی بنیاد بن سکتا ہے۔
یورپی ماحولیاتی تنظیموں نے بھی سندھ کے کسانوں کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کاربن اخراج کرنے والی بڑی کمپنیوں کو اب اپنے ماحولیاتی اثرات کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔دوسری جانب پاکستانی وزارتِ ماحولیات نے تصدیق کی ہے کہ وہ اس معاملے پر بین الاقوامی قانونی مشاورت حاصل کر رہی ہے تاکہ کسانوں کی مدد کی جا سکے۔
