پشاور: پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پشاور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں واضح کہا ہے کہ فوج سیاست میں شامل نہیں ہونا چاہتی اور اسے سیاست سے دور رکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں امن فوج بھیجنے یا کسی بین الاقوامی آپریشن میں شرکت کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کو کرنا ہوگا، فوج اس معاملے میں خود فیصلہ کن نہیں بنے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سخت لہجے میں کہا بس بہت ہوگیاافغانستان سرحد پار دہشت گردی بند کرے۔ ہم افغان طالبان سے سیکیورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان طاقت کے بل بوتے پر امن قائم رکھے گا اور افغانستان یا تو دہشت گرد عناصر کے خلاف کاروائی کرے یا انہیں ہمارے حوالے کرے۔ انہوں نے زور دیا کہ موجودہ کابل میں نمائندہ حکومت کی غیر موجودگی خطے میں عدم استحکام کا سبب ہے، اور پاکستان عوامی نمائندہ حکومت کا حامی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بارہا کہا کہ افغانستان اب بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکزبن چکا ہے، جہاں "ہر قسم کی دہشت گرد تنظیم” موجود ہے اور وہ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر کہا کہ خیبر ایجنسی میں دہشت گردی کے لیے ڈرگ کے پیسے استعمال ہو رہے ہیں اور تیراہ میں دہشت گردی کے واقعات کی کثرت تشویشناک ہے۔
ترجمان نے ملک گیر سیکیورٹی کوششوں کا خلاصہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2025 کے دوران سیکیورٹی فورسز نے 62 ہزار سے زائد آپریشنز کیے، جن میں 1,667 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گرد حملوں کے دوران 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور اندازاً 100 فتنۃ الخوارج کے دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ یہ اعداد و شمار فوجی کارروائیوں کی شدت اور قربانیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
جب سوال کیا گیا کہ خیبرپختونخواٰ میں گورنر راج یا سیاسی صورتحال کیا معنی رکھتی ہے، تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے ساتھ ریاستی اور سرکاری تعلقات برقرار رہیں گے، اور کور کمانڈر پشاور نے بھی اسی سرکاری حیثیت کے تحت ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ گورنر راج کا فیصلہ سرکاری اور آئینی تقاضوں کے تحت ہونا چاہیے اور یہ فوج کا اختیار نہیں یہ حکومت کا معاملہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سمندر میں اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کررہا ہے، تاہم پاکستان "نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بھارت نے دوبارہ حملہ کیا تو پاکستان پہلے سے زیادہ شدید جواب دے گا۔ یہ اظہارِ موقف خطے میں موجود کشیدگی اور دفاعی تیاری کا عکاس ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات چند واضح پیغامات دیتے ہیںپہلی بات یہ کہ فوج نے باضابطہ طور پر اپنی پوزیشن کو واضح کیا ہےوہ سیاست میں شمولیت نہیں چاہتی مگر امن و امان کے معاملات میں فعال رہے گی۔دوسرا، کابل حکومت کی نوعیت اور حدودِ عمل کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہارپاکستان نمائندہ افغان قیادت کا انتظار کرتا ہے، اور جب تک دہشت گردی کا ٹھوس خاتمہ نہیں ہوگا، سرحد پار کارروائیوں پر سختی برقرار رہے گی۔
تیسرا، سیکیورٹی ڈیٹا ہزاروں آپریشنز اور سینکڑوں ہلاک دہشت گردیوں کے خلاف جارحانہ اندازِ کار کی عکاسی کرتے ہیں، مگر ان قربانیوں نے ملک گیر امن و استحکام کے سوالات بڑھا دئیے ہیں۔چوتھا، بین الاقوامی ماحول بھارت کے خلاف سخت اشارے اور غزہ میں بین الاقوامی فوج بھیجنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کی شراکت داری کا تذکرہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان کام کرنے کے اصول ابھی بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے اظہارِ موقف نے حکومت، پارلیمنٹ اور عوام کے لیے چند کلیدی سوالات کھڑے کیے ہیں: حکومت کس حد تک افغان سرزمین پر سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مذاکرات یا دباؤ ڈال سکتی ہے؟ پارلیمنٹ یا بین الاقوامی فورمز میں غزہ یا کسی اور بین الاقوامی مشن میں فوجی شمولیت کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اور علاقائی حریفوں کے تناظر میں دفاعی پالیسی کس سمت میں جائے گی؟
یہ بیانات آئندہ قومی اور علاقائی پالیسی سازی کے اہم اجزا بن سکتےہیں خاص طور پر جب سیکیورٹی فورسز نے واضح کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف موثر کاروائی جاری رکھیں گے، مگر ساتھ ہی وہ سیاست سے دور رہنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ یہ توازن پاکستان کی اندرونی سالمیت اور بین الاقوامی وابستگیوں کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو گا۔
