ہور: الیکشن ٹریبونل نے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی صوبائی نشست پی پی 159 لاہور سے کامیابی کے خلاف پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار مہر شرافت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کا انتخاب درست قرار دے دیا۔
یہ فیصلہ جسٹس (ر) رانا زاہد محمود کی سربراہی میں جاری کیا گیا، جس میں قرار دیا گیا کہ درخواست گزار مہر شرافت اپنے الزامات کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ ٹریبونل کے انیس صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیلِ درخواست گزار نے ’’انتخابی بے ضابطگیوں اور کرپشن‘‘ کے عمومی الزامات تو لگائے، لیکن ان الزامات کی قانونی بنیاد یا ثبوت پیش نہیں کیے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ فارم 45 کے مطابق وہ کامیاب ہوئے تھے، لیکن فارم 47 میں تبدیلی کرکے مریم نواز کو فاتح قرار دیا گیا۔ تاہم، ٹریبونل نے یہ مؤقف ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ درخواست میں قانونی خامیاں اور کارروائی کی غلطیاں موجود تھیں۔
سرکاری نتائج کے مطابق مریم نواز نے 23 ہزار 598 ووٹ حاصل کیے، جبکہ مہر شرافت کو 21 ہزار 491 ووٹ ملے تھے۔
فیصلے کے بعد مہر شرافت نے مریم نواز کو کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اپنی فتح اور ان کی شکست ثابت کر دیں تو وہ 20 ملین روپے جرمانہ ادا کریں گے، عوامی معافی مانگیں گے اور سیاست چھوڑ دیں گے۔
یہ فیصلہ مریم نواز کے لیے ایک اور قانونی فتح ہے۔ اس سے قبل بھی لاہور ہائی کورٹ نے فروری 2024 میں ان کے خلاف دائر انتخابی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما حمزہ شہباز، خواجہ آصف، عطا تارڑ اور عون چوہدری کے خلاف دائر درخواستیں بھی شامل تھیں۔
دوسری جانب، بین الاقوامی مبصرین کے مطابق پاکستان کے 2024 کے عام انتخابات پر شفافیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ دولتِ مشترکہ مبصر گروپ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا کہ اہم اداروں کے بعض فیصلوں نے انتخابات کی شفافیت، شمولیت اور اعتبار کو متاثر کیا۔ رپورٹ کے مطابق، ان فیصلوں کا سب سے زیادہ اثر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پڑا۔
یہ رپورٹ انتخابات کے تقریباً 11 ماہ بعد منظرِ عام پر آئی، جس میں قبل از انتخابات حالات، انتخابی انتظامات اور بعد از انتخاب قانونی کارروائیوں پر تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے جو پاکستان کے انتخابی نظام پر کئی نئے سوالات اٹھاتی ہے۔
