لاہور:پنجاب حکومت نے سرکاری بھرتیوں کے نظام میں ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی متعارف کرا دی ہے۔ نئے جاری کردہ پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس (ری پیل) آرڈیننس 2025 کے تحت اب سرکاری ملازمین کو بنیادی تنخواہ کے اسکیل کے بجائے یکمشت تنخواہ (لَم سم پیکیج) پر بھرتی کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں نئے بھرتی ہونے والے ملازمین پنشن کے حقدار نہیں ہوں گے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام صوبائی خزانے پر پنشن کی صورت میں بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا۔
یہ آرڈیننس 31 اکتوبر سے نافذ العمل ہو چکا ہے اور پیر کے روز اسے پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اس قانون کے ذریعے “پنجاب ریگولرائزیشن آف سروس ایکٹ 2018” کو منسوخ کر دیا گیا ہے، جو سرکاری کنٹریکٹ ملازمین کی چار سالہ سروس کے بعد مستقل تقرری کا حق دیتا تھا۔ نئے نظام کے تحت اب کوئی بھی کنٹریکٹ ملازم مستقل نہیں ہو سکے گا بلکہ اسے پوری سروس کے دوران کنٹریکٹ پر ہی کام کرنا ہوگا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ بھرتیوں کو کارکردگی پر مبنی بنایا جائے، تاکہ ملازمین اپنی کارکردگی کے مطابق ہی خدمات انجام دیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ پنشن ادائیگیوں کا حجم سالانہ کھربوں روپے تک پہنچ چکا ہے اور یہ صوبائی بجٹ کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن گیا ہے۔ حکومت کے مطابق نئے نظام سے مالی استحکام پیدا ہوگا اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل کی فراہمی بہتر بنائی جا سکے گی۔
تاہم آرڈیننس کے نفاذ کے بعد موجودہ کنٹریکٹ ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ سرکاری افسران کا مؤقف ہے کہ یہ قانون ان پر اثرانداز نہیں ہوگا، جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ ریگولرائزیشن کی اہلیت اب ان ملازمین کے لیے بھی ختم ہو جائے گی جو اس قانون کے تحت مستقل ہونے کے منتظر تھے۔ سیکریٹری ریگولیشنز میاں ابرار احمد نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 2018 کا قانون منسوخ کر دیا گیا ہے، تاہم انہوں نے نئے آرڈیننس کے اثرات سے متعلق وضاحت کرنے سے گریز کیا۔
ایک سینئر سول سرونٹ نے اس پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اگر پنشن کا نظام ختم کرنا ہے تو ملازمین کو مارکیٹ کے مطابق تنخواہیں دینی چاہئیں۔ ان کے مطابق، مستقل ملازمتوں کے مواقع ختم کرنے سے طویل المدتی طور پر انسانی وسائل کے معیار میں کمی آسکتی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ آرڈیننس نے منسوخ شدہ قانون کے تحت کیے گئے فیصلوں کو تحفظ فراہم کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی تشریح کے حوالے سے عدالتوں میں متعدد مقدمات دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق، مستقل روزگار کے حق کو محدود کرنا آئینی اور قانونی طور پر ایک متنازع اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ قدم پنجاب میں روزگار کے ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، جو آنے والے برسوں میں سرکاری ملازمت کے تصور کو مکمل طور پر بدل دے گا۔ اگر حکومت اس نظام کے ساتھ شفاف بھرتی کے اصول اور بہتر تنخواہیں فراہم کرنے میں کامیاب ہو گئی، تو یہ اقدام مالی نظم و ضبط کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، بصورتِ دیگر یہ ہزاروں سرکاری ملازمین کے لیے بے یقینی اور خدشات کا باعث بنے گا۔
