حکومت پاکستان آنے والے دنوں میں دفاعی قوانین اور آئینی ترامیم سے متعلق اہم قانون سازی کے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے مطابق مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے آئندہ دو سے تین دنوں میں متوقع ہے، اور اسی کے بعد یہ بل آئندہ ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ حکومت اس وقت مسلح افواج سے متعلق قوانین میں ضروری ترامیم پر غور کر رہی ہے تاکہ بدلتی ہوئی دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین میں موجود بعض شقوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ خواجہ آصف نے وضاحت کی کہ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 243 میں ممکنہ ترمیم زیرِ بحث ہے کیونکہ ملکی دفاع کے تقاضے اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ یہ آرٹیکل اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مسلح افواج کی کمان اور اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے، جبکہ افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر صدرِ مملکت ہوتے ہیں۔
ادھر حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کو کسی بھی نئی قانون سازی کے ذریعے منسوخ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب بعض سیاسی حلقوں میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ممکنہ نئی ترامیم کے نتیجے میں صوبائی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے۔
پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کی قیادت کے مسئلے پر بھی ہلچل دیکھی گئی۔ بیرسٹر گوہر نے اسپیکر کے دفتر میں باضابطہ طور پر اپوزیشن لیڈر کے اعلان سے متعلق درخواست جمع کرائی اور کہا کہ اگر اسپیکر نے قائدِ حزبِ اختلاف کا باضابطہ اعلان نہ کیا تو وہ محمود اچکزئی سے کہیں گے کہ وہ یہ ذمہ داری سنبھال لیں۔ انہوں نے 2022 کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں عدالت نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ 45 دن کے اندر ایسی قانون سازی کرے جس کے تحت فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کو سویلین عدلیہ میں اپیل کا حق دیا جا سکے۔
ملک عامر ڈوگر نے بھی اسمبلی کے فلور پر مطالبہ کیا کہ قواعد کے مطابق محمود اچکزئی کو فوراً اپوزیشن لیڈر قرار دیا جائے۔ تاہم اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے تجویز دی کہ اپوزیشن اس معاملے پر اسپیکر کے دفتر میں جا کر بات کرے کیونکہ یہ مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
اسی دوران بدھ کے روز قومی اسمبلی کی کارروائی کے آغاز سے قبل ایک اور منظر اس وقت سامنے آیا جب پارلیمنٹ کور کرنے والے صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔ یہ احتجاج مختلف ٹی وی چینلز سے صحافیوں کی برطرفیوں اور میڈیا پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کے خلاف تھا۔ ڈپٹی اسپیکر نے وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ کو ہدایت دی کہ وہ احتجاج کرنے والے نمائندوں سے مذاکرات کریں۔
پریس رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کے نمائندے ایم بی سومرو نے حکومت کی جانب سے روزنامہ "ڈان” کے اشتہارات معطل کرنے کے اقدام پر سخت تشویش ظاہر کی اور مطالبہ کیا کہ میڈیا ہاؤسز میں صحافیوں کی جبری برطرفیوں پر فوری توجہ دی جائے۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اس مسئلے پر گہری تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی میڈیا ادارے کو بغیر اطلاع یا جواز کے اپنے ملازمین کو فارغ کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور آئندہ ہفتے میڈیا مالکان سے ملاقات میں اس مسئلے پر بات کی جائے گی۔ عطااللہ تارڑ نے کہا کہ حکومت نے میڈیا اداروں کی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ادائیگیاں وقت پر یقینی بنائی ہیں، اور اب یہ ضروری ہے کہ ان مالی فوائد کا فائدہ اُن صحافیوں تک بھی پہنچے جو اصل میں میدان میں کام کرتے ہیں۔
وزیرِ اطلاعات نے مزید بتایا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے ایک وفد نے اُن سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔ ان مطالبات پر غور کے لیے آئندہ اجلاس میں میڈیا کی مختلف تنظیموں، جن میں پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (PBA) اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS) شامل ہیں، کو بھی بلایا جائے گا تاکہ ایک دیرپا اور منصفانہ حل نکالا جا سکے۔
یوں موجودہ سیاسی و پارلیمانی فضا میں ایک جانب دفاعی قوانین اور آئینی ترامیم پر مشاورت جاری ہے، تو دوسری جانب میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے روزگار کے تحفظ کا معاملہ بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آ رہا ہے۔
