اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں، جو مسلح تنازعات کے ماحولیاتی اثرات اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی خطرات کے بارے میں منعقد ہوا، پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے ایک تفصیلی بیان دیتے ہوئے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کی یکطرفہ معطلی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے عالمی برادری کو آگاہ کیا کہ یہ اقدام مشترکہ قدرتی وسائل کو سیاسی ہتھیار بنانے کی ایک خطرناک مثال ہے، جو خطے کے ماحولیاتی توازن اور لاکھوں افراد کی روزی روٹی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
سفیر عاصم افتخار نے نشاندہی کی کہ برصغیر کے کروڑوں لوگ دریائے سندھ کے نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ دریا نہ صرف کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں بلکہ لاکھوں افراد کے لیے پینے کے پانی اور بجلی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا یہ فیصلہ محض ایک سفارتی چال نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو چھ دہائیوں سے قائم باہمی اعتماد اور تعاون کو مجروح کرتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہونے والا یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں پانی کے منصفانہ استعمال کی ایک تاریخی مثال ہے۔
اس معاہدے کے تحت مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کے دائرہ اختیار میں ہیں جبکہ مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے حصے میں آتے ہیں۔ یہ بندوبست طویل عرصے تک دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازعے کو محدود رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم، سفیر عاصم افتخار کے مطابق، بھارت کا یکطرفہ فیصلہ اس توازن کو برباد کرنے کے مترادف ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی آبی قوانین کے لیے بھی ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ کے نمائندوں کو یاد دلایا کہ دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (Permanent Court of Arbitration) نے 2025 میں اپنے فیصلے میں سندھ طاس معاہدے کی مکمل حیثیت اور اس کے تنازعہ حل کرنے کے طریقہ کار کی توثیق کی تھی۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ اس معاہدے میں کسی فریق کو یکطرفہ طور پر اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ عاصم افتخار نے کہا کہ بھارت کی اس فیصلے سے روگردانی ایک تشویشناک رجحان کی عکاس ہے جو خطے میں وسائل کے استعمال کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر پیش کرتی ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ موسمیاتی دباؤ، پگھلتے گلیشیئر، اور غیر متوازن بارشوں کے نظام نے جنوبی ایشیا کی آبی سلامتی کو پہلے ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں اگر ایک فریق دانستہ طور پر پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالے تو یہ خوراک کی کمی، معاشی عدم استحکام، اور ممکنہ سرحدی تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ماحولیات اور سلامتی کے مسائل اب ایک دوسرے سے جدا نہیں رہے اور سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ اپنے امن قائم رکھنے کے منصوبوں میں ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار وسائل کے انتظام کو لازمی حصہ بنائے۔
سفیر عاصم افتخار نے عالمی مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ماحولیاتی تحفظ، بایو ڈائیورسٹی اور موسمیاتی تبدیلی کے پروگراموں کے لیے امداد گرانٹ کی بنیاد پر فراہم کریں، تاکہ کمزور ممالک قرضوں کے بوجھ میں مزید نہ دب جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ یا تنازعات سے متاثرہ علاقوں کی ماحولیاتی بحالی کے لیے مالی معاونت شفاف، غیر سیاسی اور ترقیاتی امداد سے الگ ہونی چاہیے۔
انہوں نے اجلاس میں ایک اور اہم معاملے پر بھی بات کی — پاکستان کا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کے صدر احمد الشراع اور وزیر داخلہ انس خطاب کو *1267 پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کے حق میں ووٹ دینا۔ انہوں نے اس فیصلے کو شام میں *سیاسی استحکام، ادارہ جاتی بحالی اور اقتصادی ترقی کی سمت ایک مثبت قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق، پابندیوں میں نرمی خودکفیل امن کے عمل کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے تاکہ شام اپنے مستقبل کی تعمیر میں خود قیادت کر سکے۔
پاکستانی مندوب کے ان دونوں بیانات نے یہ واضح کر دیا کہ اسلام آباد بین الاقوامی سطح پر ماحولیاتی انصاف، وسائل کے منصفانہ استعمال اور تعاون پر مبنی سفارت کاری کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بنانا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ممالک پانی، توانائی یا فطری وسائل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگیں تو اس کے اثرات صرف ایک خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قدرتی وسائل تصادم کا نہیں بلکہ تعاون کا ذریعہ بننے چاہییں، اور یہی سوچ مستقبل کے پائیدار امن کی ضمان
