اسلام آباد:بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نےپاکستان میں گورننس اورشفافیت کے فقدان کو دور کرنے کے لیے بڑی اصلاحات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ عالمی ادارے نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ عدلیہ، بیوروکریسی، اور ریاستی اثاثوں کے نظام میں جامع احتساب اور شفافیت کو یقینی بنائے، تاکہ عوامی اداروں پر اعتماد بحال ہو اور سرمایہ کاری کے راستے ہموار ہوں۔
رپورٹ کے مطابق، آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ پاکستان ایک مرکزی اثاثہ جات رجسٹری قائم کرے جو تمام سرکاری زمینوں، ان کے حقیقی مالکان اور منتقلی کے ضوابط کا ریکارڈ رکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ججوں کی تقرری اور کارکردگی کے جائزے کا شفاف نظام وضع کیا جائے، جبکہ بیوروکریٹس کے اثاثوں کے گوشوارے عوام کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ بدعنوانی کے امکانات کم کیے جا سکیں۔
عالمی ادارے نے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کو بھی مکمل طور پر شفاف بنانے کی ہدایت دی ہے، اور کہا ہے کہ کونسل اپنی پہلی سالانہ رپورٹ شائع کرے جس میں تمام سرمایہ کاری معاہدوں اور فراہم کردہ مراعات کی تفصیلات درج ہوں۔ رپورٹ میں حکومت کو پبلک پروکیورمنٹ نظام میں اصلاحات، ترجیحی مراعات کے خاتمے، اور براہِ راست ٹھیکوں پر پابندی عائد کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ ایف بی آر کے اندر ایک علیحدہ ٹیکس پالیسی آفس قائم کیا جائے جو ٹیکس کلیکشن کے عمل سے آزاد ہو۔ اس دفتر کا کام ٹیکس نظام کو سادہ بنانا، رعایتوں کو کم کرنا اور ایک جامع ٹیکس حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگا۔ اسی طرح، اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے سیکرٹری خزانہ کو اسٹیٹ بینک کے بورڈ سے ہٹانے اور گورنر یا ڈائریکٹرز کی برطرفی کی وجوہات عوام کے سامنے ظاہر کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزارتِ خزانہ اس رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر کر رہی ہے حالانکہ اسے قانونی طور پر شائع ہونے سے نہیں روک سکتی۔ یہ رپورٹ جولائی کے آخر تک منظرِ عام پر آنی تھی لیکن ڈیڈ لائن کئی مرتبہ آگے بڑھائی جا چکی ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے بورڈ اجلاس سے قبل جاری کرنا ہوگی، کیونکہ اسی اجلاس میں پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی اگلی قسط کی منظوری دی جائے گی۔
آئی ایم ایف کی اس رپورٹ کو پاکستان کے لیے ایک نیا گورننس چارٹر قرار دیا جا رہا ہے، جس میں شفافیت، ادارہ جاتی احتساب اور عوامی اعتماد کی بحالی کو معیشت کی پائیداری کے لیے لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ اگر حکومت ان سفارشات پر عمل درآمد کرتی ہے تو یہ نہ صرف عالمی اداروں کے اعتماد میں اضافہ کرے گا بلکہ ملک کے اندر شفاف طرزِ حکمرانی کی ایک نئی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔
