اسلام آباد کی سیاست ایک بار پھر آئینی اصلاحات کے گرد گردش کر رہی ہے، جہاں پاکستان کے 27ویں آئینی ترمیمی بل نے سیاسی و قانونی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے، جو انہوں نے باکو (آذربائیجان) سے ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد کی، اس اہم بل کی منظوری دی، جس کے بعد اسے سینیٹ میں پیش کر دیا گیا۔ یہ ترمیم آئینِ پاکستان کے 48 آرٹیکلز میں تبدیلیاں تجویز کرتی ہے، جسے ماہرین آئینی تاریخ کی بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
اس مجوزہ ترمیم کا سب سے نمایاں پہلو دفاعی ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243 میں بڑی تبدیلی تجویز کی گئی ہے، جس کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر کے ایک نیا عہدہ — چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) — تخلیق کیا جائے گا۔ اس کا مقصد تینوں مسلح افواج (بری، بحری اور فضائیہ) کے درمیان مربوط قیادت کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نئی شق کے مطابق فیلڈ مارشل کا عہدہ تاحیات رکھنے کی بھی تجویز دی گئی ہے، جو عسکری قیادت کے تسلسل کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ جدید جنگوں کے تقاضے بدل چکے ہیں، اور اسی بنیاد پر مسلح افواج کے اعلیٰ عہدوں کی وضاحت ضروری ہو چکی تھی۔ ان کے مطابق حالیہ پاک-بھارت تنازع اور علاقائی سکیورٹی کے تناظر نے واضح کر دیا کہ دفاعی نظام کو وقت کے مطابق بہتر بنانا ناگزیر ہے۔
دفاعی ترامیم کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں بھی نمایاں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق ججز کے تبادلے کا مکمل اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دیا جائے گا۔ اس عمل میں جس ہائی کورٹ سے جج کا تبادلہ ہونا ہے اور جس ہائی کورٹ میں بھیجا جانا ہے، دونوں عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان شامل ہوں گے تاکہ شفافیت اور باہمی مشاورت کو یقینی بنایا جا سکے۔ مزید یہ کہ نئی آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، تاکہ تجربہ کار ججز زیادہ عرصے تک خدمات انجام دے سکیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں عدلیہ کی خودمختاری، ججز کی تعیناتی اور اندرونی شفافیت پر جاری مباحث کے تناظر میں یہ ترامیم خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ بعض حلقے اسے عدالتی نظام میں توازن پیدا کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جب کہ ناقدین کے نزدیک اس سے عدلیہ پر انتظامیہ کا اثر و رسوخ بڑھ سکتا ہے۔
بل میں صوبائی سطح پر بھی کئی بڑی تجاویز شامل ہیں، خصوصاً بلوچستان کے حوالے سے۔ اس ترمیم میں بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، صوبائی کابینہ کے حجم میں وسعت اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ حکومتی مؤقف کے مطابق یہ اقدامات پسماندہ علاقوں کو زیادہ نمائندگی دینے کے لیے ہیں، البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے صوبائی مالیاتی بوجھ میں اضافہ اور سیاسی اقربا پروری کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح سینیٹ کے انتخابات کے طریقۂ کار میں بھی تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ نئے بل کے مطابق پورے سینیٹ کے انتخابات ایک ہی وقت میں کرائے جائیں گے، جس سے ایوانِ بالا کی سیاسی سمت اور نمائندگی میں تسلسل قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ترمیمی بل میں نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کے حصے میں کسی قسم کی تبدیلی شامل نہیں کی گئی۔ ابتدا میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وفاق صوبوں کے مالیاتی حصے میں کمی کرنا چاہتا ہے، تاہم بعد میں اس نکتے کو بل سے نکال دیا گیا تاکہ سیاسی کشیدگی سے بچا جا سکے۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ یہ ترمیم دراصل میثاقِ جمہوریت (Charter of Democracy) کے تحت کی جا رہی ہے، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ تھا۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث کے بعد ترمیم پر ووٹنگ ہوگی، اور اگر اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی تو یہ آئینِ پاکستان کا حصہ بن جائے گی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ترمیم محض چند آرٹیکلز کی تبدیلی نہیں بلکہ ریاستی اختیارات کی از سرِ نو تقسیم کی کوشش ہے۔ اس کے ذریعے حکومت، عدلیہ اور عسکری اداروں کے کردار کو نئے زاویے سے متعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ ماہرین اسے “ادارہ جاتی وضاحت” کا قدم قرار دیتے ہیں، جب کہ کچھ اسے “اختیارات کے ارتکاز” کا خطرہ سمجھتے ہیں۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کو معاشی دباؤ، عدالتی تنازعات اور سول و عسکری تعلقات میں نازک توازن جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت اس ترمیم کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ سیاسی استحکام اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی خواہاں ہے۔
آخرکار، یہ کہا جا سکتا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی مسودہ نہیں، بلکہ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کی ازسرِ نو تشکیل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ یہ اصلاحات ملک میں استحکام اور نظم پیدا کریں گی یا اداروں کے درمیان فاصلہ بڑھائیں گی — اس کا فیصلہ آنے والے ہفتوں میں پارلیمنٹ کے مباحث اور عوامی ردِعمل سے واضح ہو جائے گا۔
