فیصل آباد: پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3.5 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، جس کے ساتھ ملک دنیا میں ذیابیطس کے لحاظ سے پہلے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے پیش نظر پاکستان سوسائٹی آف میڈیسن کے زیرِ اہتمام فیصل آباد میں تیسری ذیابیطس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد عوام اور طبی ماہرین کو بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرات اور مؤثر علاج کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔
کانفرنس میں شریک ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی شرح نہ صرف صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس کی وجہ سے اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اسپتالوں کا رُخ کرنے والے تقریباً 50 فیصد مریض ذیابیطس یا اس کی پیچیدگیوں کے شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال ملک کی صحت عامہ کے نظام کے لیے سنگین چیلنج ہے اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے
کانفرنس میں ماہرین نے نوجوانوں اور بچوں میں ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرات کی جانب بھی توجہ دلائی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ غیر معیاری غذائیں، فاسٹ فوڈ، زیادہ میٹھا اور کیلوریز والی اشیاء نوجوان نسل میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ صحت مند طرز زندگی، متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش اور ذیابیطس کے بارے میں آگاہی نوجوانوں میں بیماری کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ عالمی سطح پر بھی ذیابیطس ایک بڑھتی ہوئی وبا بن چکی ہے، لیکن پاکستان میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو بیماری کی بروقت تشخیص، احتیاطی تدابیر اور باقاعدہ طبی معائنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پیچیدگیوں اور خطرناک نتائج سے بچا جا سکے۔
کانفرنس میں شریک ماہرین نے زور دیا کہ ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ غیر معیاری غذائیں، جسمانی سرگرمی کی کمی اور صحت کے بارے میں کم شعور ہے۔ انہوں نے حکومت، تعلیمی اداروں اور نجی شعبے سے مطالبہ کیا کہ وہ آگاہی مہمات، طبی سہولیات اور تحقیقاتی پروگراموں کو بڑھا کر اس وبا کا مؤثر مقابلہ کریں۔
