اسلام آباد:ملک کے نئے اعلیٰ دفاعی ڈھانچے کی تشکیل ایک بارپھرغیر یقینی کاشکارہوگئی ہے، کیونکہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے باوجود چیف آف ڈیفنس (CDF) کے نوٹیفکیشن میں غیر متوقع تاخیر نے نہ صرف اعلیٰ عسکری قیادت کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ فضائیہ اور بحریہ پر CDF کے آپریشنل اور کمانڈ اختیار کے حوالے سے مزید سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ دفاعی حکام کے مطابق نیا نظام اس تصور کے تحت لایا گیا تھا کہ پاکستان آرمی، ایئر فورس اور نیوی کو یکساں طور پر ایک متحدہ کمانڈ کے ماتحت لایا جائے، مگر نوٹیفکیشن نہ ہونے کے باعث منتقلی کا عمل پیچیدگی اختیار کر گیا ہے۔
دوسری جانب قومی اسٹریٹجک کمانڈ کے لیے نئے چار ستارہ سربراہ کی تقرری بھی روک دی گئی ہے، جو اس سے قبل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی انجام دے رہا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ اہم تقرری CDF کے نوٹیفکیشن کے بعد ہی عمل میں آئے گی۔ ادھر نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) ایکٹ میں ترمیم بھی ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ CJCSC کے خاتمے اور نئے CDF اور NSC کمانڈر کی آئینی حیثیت کو واضح کیا جا سکے۔ دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نئے ڈھانچے میں ایئر چیف اور نیول چیف کی حیثیت، NCA میں ان کی نمائندگی اور اسٹریٹجک کمانڈ کے مستقبل کا تعین کیسے کیا جائے گا، جو اس پورے معاملے کو مزید حساس اور پیچیدہ بنا رہا ہے۔
اسلام آباد:ملک کےدفاعی ڈھانچےمیں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے حکومتی منصوبے کو اس وقت شدید دھچکا لگا ہے، کیونکہ 27ویں آئینی ترمیم کی پارلیمانی منظوری کے باوجود چیف آف ڈیفنس (CDF) کے نوٹیفکیشن میں تعطل نے نہ صرف اعلیٰ عسکری قیادت کو حیران اور پریشان کر دیا ہے بلکہ پورے دفاعی ماڈل کی تشکیل کو غیر معمولی پیچیدگیوں سے دوچار کر دیا ہے۔ نئے نظام کے تحت فوج، فضائیہ اور بحریہ کو ایک متحدہ کمانڈ کے ماتحت لانے کا تصور پیش کیا گیا تھا، تاہم CDF کے اختیارات—خصوصاً پاکستان ایئر فورس اور پاکستان نیوی پر آپریشنل اور کمانڈ کنٹرول ابھی تک واضح نہ ہونے کے باعث دفاعی حلقوں میں سنگین سوالات جنم لے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سب سے حساس معاملہ یہ ہے کہ مستقبل میں PAF اور PN کے سربراہان براہ راست قومی دفاعی پالیسیوں میں کتنی خودمختاری برقرار رکھ سکیں گے اور آیا ان کی آپریشنل ترجیحات CDF کی ہدایات کے تابع ہوں گی یا نہیں۔
اسی تعطل کے باعث قومی اسٹریٹجک کمانڈ کے لیے نئے چار ستارہ سربراہ کی تقرری بھی مؤخر کر دی گئی ہے، جو ملک کے جوہری اثاثوں اور اسٹریٹجک فورسز کی نگرانی کا انتہائی اہم فریضہ سنبھالے گا۔ یہ منصب پہلے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (CJCSC) کے پاس تھا، مگر نئے آرکیٹیکچر میں NSC کمانڈر کے تحت ایک مضبوط اور زیادہ خود مختار اسٹریٹجک ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے۔ اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ NSC کمانڈر کی تقرری صرف CDF کی قانونی توثیق کے بعد ہی ممکن ہوگی۔
دوسری جانب نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) ایکٹ میں ترمیم ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ CJCSC کے خاتمے کے بعد CDF اور NSC کمانڈر کی نئی حیثیت کو آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت واضح کیا جا سکے۔ اس اہم قانونی مشق میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایئر چیف اور نیول چیف کی مستقبل میں NCA میں کیا نمائندگی ہوگی، کیونکہ جب ان کے اسٹریٹجک شعبے ایک متحدہ NSC کمان کے ماتحت کر دیے جائیں گے تو فیصلہ سازی کے اعلیٰ ایوان میں ان کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ تبدیلیاں نہ صرف کمانڈ چین کو ازسرنو ترتیب دیں گی بلکہ سروسز کے باہمی توازن، اسٹریٹجک ایڈوائزری رولز اور جوہری اثاثوں کی نگرانی کے طریقہ کار پر بھی براہ راست اثر انداز ہوں گی۔
عسکری اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور فوجی قیادت نے ان قانونی و کمانڈ پیچیدگیوں کو فوری طور پر حل نہ کیا تو نیا دفاعی ڈھانچہ، جو ملک کی قومی سلامتی کے لیے ”زیادہ مربوط اور جدید نظام‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، وہی نظام مستقبل میں باہمی غلط فہمیوں، اختیارات کی کشمکش اور فیصلہ سازی میں تاخیر کا مرکز بن سکتا ہے۔
