پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے پیر کے روز سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والوں کے خلاف ایک "وسیع پیمانے پر کارروائی” کرے گی۔ انہوں نے صحافیوں، بلاگرز، پوڈکاسٹرز اور دیگر میڈیا تخلیق کاروں سے کہا کہ وہ خبروں کی اشاعت میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، کیونکہ غلط خبریں پھیلانے سے عوام میں خوف و ہراس پیدا ہو سکتا ہے اور معاشرتی امن متاثر ہو سکتا ہے۔ وزیرِ داخلہ نے واضح کیا کہ اب مزید کسی کو جعلی خبروں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کی حکومت نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے خاتمے کے اقدامات تیز کر دیے ہیں۔ اس سال، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) قائم کی گئی تاکہ پورے ملک میں سائبر جرائم کی تحقیقات کی جا سکیں اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ جنوری میں حکومت نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (PECA) میں ترامیم کیں، جن کا مقصد آن لائن ہراسانی، ہیکنگ اور ڈیٹا کی خلاف ورزیوں کا سدِ باب کرنا تھا۔ حکام کا موقف ہے کہ یہ اقدامات عوام کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں، خاص طور پر اس تیزی سے بدلتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا میں۔ وزیرِ داخلہ نے زور دیا کہ حکومت کا مقصد جائز صحافت کو دبانا نہیں بلکہ یہ یقینی بنانا ہے کہ عوام تک پہنچنے والی معلومات درست اور قابلِ اعتبار ہوں۔
نقوی نے صحافیوں کے کردار کی اہمیت بھی اجاگر کی، اور کہا کہ حکومت انہیں پیشہ ور صحافی مانتی ہے جو اپنے ادارے کے قواعد و ضوابط اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کے معیار کے مطابق خبریں شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "جو لوگ جعلی خبریں پھیلاتے ہیں وہ ہمارے نزدیک صحافی نہیں ہیں۔” انہوں نے میڈیا کے تخلیق کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وڈیوز، بلاگز یا پوڈکاسٹس کے ذریعے معلومات شائع کرتے وقت ہمیشہ ذمہ داری برتیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر عوام میں خوف و ہراس پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور انہیں جواب دہ بنایا جائے گا۔
وزیرِ داخلہ نے اس موقع پر پاکستان میں غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک واپسی کے بارے میں بھی معلومات دی۔ نقوی نے بتایا کہ 17 ستمبر 2024 سے 31 مارچ 2025 کے درمیان تقریباً 469,000 افغان شہری شمال مغربی پاکستان کے طورخم بارڈر کے راستے ملک بدر کیے گئے۔ یہ کارروائی 2023 میں شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد اس وقت ملک میں ہونے والے خودکش حملوں کے بعد سیکیورٹی خطرات کو کم کرنا تھا، جنہیں پاکستانی حکام نے افغان باشندوں سے جوڑا تھا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اس مہم کے آغاز سے اب تک 1.5 ملین سے زائد افغان شہری پاکستان سے واپس بھیجے جا چکے ہیں، جو کارروائی کی شدت اور دائرہ کار کو ظاہر کرتا ہے۔
نقوی نے کہا کہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں یہ کارروائی بڑی کامیابی کے ساتھ جاری ہے، لیکن خیبر پختونخوا (KP) میں صورتحال مختلف ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہاں غیر قانونی افغان باشندوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور افغان پناہ گزین کیمپ فعال ہیں، حالانکہ انہیں سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ گزشتہ ماہ اسلام آباد، پشاور اور وانا میں ہونے والے خودکش حملوں میں غیر قانونی افغان باشندوں کا کردار پایا گیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔
نقوی نے کہا کہ آئندہ ہفتے سے اسٹیشن ہاؤس آفیسرز (SHOs) کو اپنے علاقوں میں غیر قانونی افغان باشندوں کی شناخت کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت کو بار بار پیغام دیا کہ سب سے پہلے ملک کی حفاظت کو مقدم رکھیں، اور پھر سیاست یا دیگر امور کی طرف توجہ دیں۔ انہوں نے زور دیا، "سب سے اہم یہ ہے کہ آپ کے ملک کو کون سے مسائل درپیش ہیں اور وہ کس حد تک متاثر ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے یہی حل کریں۔”
اسلام آباد نے افغان طالبان حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ عسکری گروہوں کو پناہ دے رہی ہے، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (TTP)، اور ان کے حملوں کو پاکستانی علاقوں میں انجام دینے کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ افغان حکومت نے یہ الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی داخلی سیکیورٹی مسائل خود حل کرنے چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے اکتوبر میں ہلاکت خیز سرحدی جھڑپوں کی شکل اختیار کی، جس میں دونوں جانب سے درجنوں فوجی ہلاک ہوئے، تاہم بعد میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غلط خبریں پھیلانے اور غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک واپسی دونوں اقدامات قومی سیکیورٹی کی مجموعی حکمت عملی کے حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غلط معلومات عوام کو گمراہ کرتی ہیں اور سیکیورٹی اقدامات کی کامیابی میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ اس لیے میڈیا پیشہ ور افراد، بلاگرز اور پوڈکاسٹرز کو خبروں کی تصدیق اور ذمہ داری کے ساتھ اشاعت کی تاکید کی گئی ہے۔
تاہم، اپوزیشن جماعتوں، صحافیوں اور حقوق انسانی کے گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ قوانین کو تنقید دبانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا ہاؤسز اکثر حکام کی جانب سے ہراسانی اور دباؤ کا شکار ہیں، اور یہ خدشات ظاہر کرتے ہیں کہ PECA میں ترامیم اور دیگر اقدامات آزاد تحقیقاتی صحافت کو محدود کر سکتے ہیں۔ حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ فوکس صرف عوامی تحفظ اور قومی سلامتی پر ہے، نہ کہ آزادی اظہار پر۔ نقوی نے کہا کہ پیشہ ور صحافی جنہوں نے اخباری اصولوں کی پابندی کی، انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، اور فرق واضح طور پر جعلی خبروں پھیلانے والوں اور مستند صحافیوں کے درمیان قائم ہے۔
وزیرِ داخلہ نے غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک واپسی کے حوالے سے جاری اقدامات کو بھی سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر خیبر پختونخوا میں غیر قانونی افراد کی شمولیت سے خطرات پیدا ہوتے ہیں، اور حکومت نے اس معاملے میں سختی سے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جعلی خبروں پر کارروائی اور غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک واپسی کو ایک جامع قومی سیکیورٹی پالیسی کے حصے کے طور پر پیش کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت آن لائن اور آف لائن دونوں محاذوں پر قانون نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
آخر میں، وزیرِ داخلہ نے میڈیا پیشہ ور افراد اور صوبائی حکام کو واضح پیغام دیا کہ فیک نیوز، غیر قانونی قیام، اور سرحدی عسکریت پسندی کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ یہ بیانات حکومت کی سائبر سیکیورٹی اور داخلی تحفظ پر مرکوز حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں جوابدہی، ذمہ دارانہ رویہ اور قانون کی مکمل پاسداری شامل ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ عوام سرکاری معلومات پر اعتماد کریں، غیر قانونی رہائشی حساس علاقوں سے ہٹائے جائیں، اور عسکری گروہوں کو محفوظ ٹھکانے نہ ملیں، تاکہ ملک میں تشدد اور خلفشار کے خطرات کم ہوں۔
محسن نقوی نے سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کے خاتمے اور داخلی سیکیورٹی کے اقدامات کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا، قانونی اقدامات کو مضبوط کیا، اور غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک واپسی پر زور دیا۔ نقوی کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت شہریوں کی حفاظت، ذمہ دارانہ صحافت، اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے، جبکہ ناقدین اس پر محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ اظہار رائے پر منفی اثر نہ پڑے۔
