پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات میں ایک نئی اور اہم پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب دونوں ممالک نے اسلام آباد میں ایک ساتھ بیٹھ کر باہمی تعاون کے سات اہم معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے۔ یہ پیش رفت نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان 75 سالہ سفارتی رشتے کے ایک نئے دور کی علامت ہے بلکہ مختلف شعبوں میں عملی اشتراک کی طرف بڑھنے کا ایک مضبوط اشارہ بھی ہے۔ ان معاہدوں کے ذریعے اُوہ شعبے کور کیے گئے ہیں جن میں اعلیٰ تعلیم، صحت، کاروباری ترقی، حلال سرٹیفکیشن، آرکائیوز، اور منشیات کی روک تھام شامل ہیں—یعنی دو طرفہ تعاون کو بنیادی انسانی ترقی سے لے کر جدید معاشی ڈھانچے تک پھیلایا گیا ہے۔
اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان کے وزیرِ اعظم اور انڈونیشیا کے صدر نے باہمی روابط کو محض سفارتی سطح تک محدود رکھنے کے بجائے عملی فریم ورک تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی تفصیلی گفتگو میں تجارت، ثقافت، طبی شعبہ، ایجوکیشن، زرعی تعاون اور ہُنرمندی کے فروغ جیسے اہم نکات شامل تھے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان اور انڈونیشیا مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے مل کر کام کریں گے تاکہ دونوں معاشروں کو ترقی کے مشترکہ ثمرات مل سکیں۔
دونوں ممالک کے درمیان اس وقت تجارت تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، لیکن یہ توازن واضح طور پر انڈونیشیا کے حق میں ہے۔ پاکستان نے اس عدم توازن کو کم کرنے کے لیے اپنے زرعی شعبے اور آئی ٹی سروسز کی برآمدات کو بڑھانے کی تجاویز پیش کیں۔ وزیر اعظم نے خاص طور پر پاکستانی ڈاکٹروں، ڈینٹسٹوں اور دیگر طبی ماہرین کو انڈونیشیا بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا، تاکہ وہاں صحت کے شعبے میں موجود ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ اس اقدام سے نہ صرف انڈونیشیا کو فائدہ ہوگا بلکہ پاکستان کے طبی پیشہ ور افراد کو بھی عالمی سطح پر نئے مواقع مل سکیں گے۔
یہ ملاقات اس لحاظ سے بھی خاص تھی کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے قیام کی پچہترویں سالگرہ کے موقع پر ہوئی۔ وزیر اعظم نے اس تاریخی موقع کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان تعلقات محض رسمی نہیں بلکہ جذباتی بنیاد بھی رکھتے ہیں، خاص طور پر 1965 کی جنگ کے دوران انڈونیشیا کی جانب سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو پاکستانی قوم آج بھی عزت اور محبت سے یاد کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں زور دیا کہ آنے والا دور دونوں ملکوں کے لیے مزید مضبوط تعلقات کا دور ہوگا جہاں دونوں ملک نہ صرف اپنی ترقی بلکہ خطے کی مجموعی خوشحالی کے لیے بھی مل کر کام کریں گے۔
انڈونیشیا کے صدر نے بھی اپنے خطاب میں دو طرفہ تعلقات پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ دونوں ملک تجارت کے شعبے میں توازن لانے کے لیے عملی اقدامات تیز کریں گے۔ انہوں نے تعلیم، زراعت، صحت اور دیگر ترقیاتی شعبوں میں مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انڈونیشیا کی قیادت نے پاکستان کی جانب سے طبی ماہرین بھیجنے کی پیشکش کو سراہا اور کہا کہ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان عملی تعاون کو نئی سمت دے گا۔
عالمی امور پر بھی دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کا اظہار کیا گیا۔ انڈونیشیا کے صدر نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان اور انڈونیشیا ایک جیسے نقطہ نظر رکھتے ہیں، خصوصاً فلسطین کے مسئلے پر جہاں دونوں ممالک دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ عالمی سطح پر فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے پاکستان کے ساتھ ایک صف میں کھڑے رہیں گے۔
اسلام آباد میں انڈونیشیا کے صدر کے لیے ایک شاندار اور پروٹوکول سے بھرپور استقبال کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں سرکاری استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے اور مسلح افواج کے دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ صدر نے وزیر اعظم ہاؤس کے احاطے میں ایک یادگاری پودا بھی لگایا، جو اس دورے کی علامتی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے مہمان صدر کا استقبال کیا، جب کہ اعلیٰ سطحی انڈونیشی وفد بھی ان کے ہمراہ تھا۔
پاکستان آمد پر نور خان ایئربیس پر سرخ قالین بچھایا گیا جہاں پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم نے انڈونیشیا کے صدر کا پرجوش استقبال کیا۔ ایک دستے نے انہیں روایتی سلامی پیش کی، اور مہمان صدر کے ہمراہ آنے والا اعلیٰ سطحی وفد دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاسی کرتا تھا۔ یہ صدر پرا بووُو کا صدارت سنبھالنے کے بعد پاکستان کا پہلا دورہ ہے، جبکہ 2018 کے بعد کسی انڈونیشی صدر کا یہ پہلا دورہ بھی ہے۔
اپنے قیام کے دوران انڈونیشی صدر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں، جن میں پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کے ساتھ بھی ملاقاتیں شامل ہیں۔ اس دورے کے دوران مزید معاہدوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے، اور نئی راہیں کھلنے کی امید ہے۔
یہ دورہ نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل ہے بلکہ آنے والے برسوں میں پاک-انڈونیشیا تعاون کو نئی جہت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دونوں ملک تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ماحولیات، آب و ہوا، تعلیم اور ثقافت سمیت کئی شعبوں میں باہمی تعاون کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔ اس دورے نے واضح کر دیا ہے کہ دونوں حکومتیں علاقائی اور عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا ارادہ رکھتی ہیں، اور مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں گے۔
