اسلام آبادLاسلام آباد:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں پیش آنے والی شدید تلخ کلامی کے معاملے نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان کے خلاف باقاعدہ طور پر تحریکِ استحقاق جمع کرا دی ہے، جس کے بعد معاملہ اب سینیٹ کے ایوان میں پہنچ گیا ہے۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر پلوشہ خان نے پیپلز پارٹی کی رہنما سحر کامران کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے حکومت اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وزرا کو ایوان کے آداب اور جمہوری رویوں کا پابند بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ عوام کی آواز ہے اور یہاں کسی بھی رکن، خاص طور پر خواتین ارکان کے ساتھ غیر شائستہ اور توہین آمیز رویہ ناقابلِ برداشت ہے۔
پلوشہ خان نے کہا کہ ہم عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے ایک مکمل طور پر آئینی اور جائز سوال اٹھایا تھا۔ اجلاس کے دوران جس انداز میں بات کی گئی اور جو الفاظ استعمال ہوئے، وہ نہ صرف ایوان کے وقار کے منافی ہیں بلکہ جمہوری اقدار پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس معاملے کو دبایا نہیں جائے گا بلکہ ہر متعلقہ فورم پر اٹھایا جائے گا۔
سینیٹر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ تحریکِ استحقاق جمع کرا دی گئی ہے اور اب یہ معاملہ سینیٹ میں زیرِ بحث آئے گا، جہاں آئین اور قواعد کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ان کے مطابق یہ معاملہ ذاتی انا کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے احترام اور خواتین کے وقار کا ہے۔
انہوں نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے تعمیر کی گئی ایک سڑک کا تھا، جس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا یہ سڑک واقعی عوامی مفاد کے لیے بنائی گئی ہے یا کسی مخصوص ہاؤسنگ سوسائٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزرا ایوان کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، مسئلہ سوال کرنے کا نہیں بلکہ جواب دینے کے رویے اور نیت کا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر عبدالعلیم خان اور سینیٹر پلوشہ خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، جس میں بات "شٹ اپ” اور "یو شٹ اپ” تک جا پہنچی۔ یہ واقعہ کمیٹی اجلاس کے ماحول کو شدید کشیدہ بنا گیا تھا۔
بعد ازاں چیئرمین کمیٹی پرویز رشید کی مداخلت پر وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے سینیٹر پلوشہ خان سے مشروط معافی مانگی، تاہم پیپلز پارٹی نے اس وضاحت کو ناکافی قرار دیتے ہوئے معاملے کو ایوان تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ نہ صرف ایوانی آداب بلکہ حکومتی وزرا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے تعلقات پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے، جبکہ تحریکِ استحقاق پر بحث آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں پیش آنے والی شدید تلخ کلامی کے معاملے نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان کے خلاف باقاعدہ طور پر تحریکِ استحقاق جمع کرا دی ہے، جس کے بعد معاملہ اب سینیٹ کے ایوان میں پہنچ گیا ہے۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر پلوشہ خان نے پیپلز پارٹی کی رہنما سحر کامران کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے حکومت اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وزرا کو ایوان کے آداب اور جمہوری رویوں کا پابند بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ عوام کی آواز ہے اور یہاں کسی بھی رکن، خاص طور پر خواتین ارکان کے ساتھ غیر شائستہ اور توہین آمیز رویہ ناقابلِ برداشت ہے۔
پلوشہ خان نے کہا کہ ہم عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے ایک مکمل طور پر آئینی اور جائز سوال اٹھایا تھا۔ اجلاس کے دوران جس انداز میں بات کی گئی اور جو الفاظ استعمال ہوئے، وہ نہ صرف ایوان کے وقار کے منافی ہیں بلکہ جمہوری اقدار پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس معاملے کو دبایا نہیں جائے گا بلکہ ہر متعلقہ فورم پر اٹھایا جائے گا۔
سینیٹر پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ تحریکِ استحقاق جمع کرا دی گئی ہے اور اب یہ معاملہ سینیٹ میں زیرِ بحث آئے گا، جہاں آئین اور قواعد کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ان کے مطابق یہ معاملہ ذاتی انا کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے احترام اور خواتین کے وقار کا ہے۔
انہوں نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے تعمیر کی گئی ایک سڑک کا تھا، جس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا یہ سڑک واقعی عوامی مفاد کے لیے بنائی گئی ہے یا کسی مخصوص ہاؤسنگ سوسائٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزرا ایوان کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، مسئلہ سوال کرنے کا نہیں بلکہ جواب دینے کے رویے اور نیت کا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر عبدالعلیم خان اور سینیٹر پلوشہ خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، جس میں بات "شٹ اپ” اور "یو شٹ اپ” تک جا پہنچی۔ یہ واقعہ کمیٹی اجلاس کے ماحول کو شدید کشیدہ بنا گیا تھا۔
بعد ازاں چیئرمین کمیٹی پرویز رشید کی مداخلت پر وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے سینیٹر پلوشہ خان سے مشروط معافی مانگی، تاہم پیپلز پارٹی نے اس وضاحت کو ناکافی قرار دیتے ہوئے معاملے کو ایوان تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ نہ صرف ایوانی آداب بلکہ حکومتی وزرا اور پارلیمانی کمیٹیوں کے تعلقات پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے، جبکہ تحریکِ استحقاق پر بحث آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
