سعودی عرب نے پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے، جس کے نتیجے میں پانچ پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس موقع پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنے موقف کو بھی دہرایا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب ایک پولیس وین کو منظم بم دھماکے اور فائرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ حملہ منگل کو اس وقت ہوا جب پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ اس واقعے میں پانچ اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بعد ازاں ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی، جو اس خطے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے موجودہ خطرات کی یاد دہانی بھی کراتا ہے۔
بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں سعودی وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ مملکت تمام دہشت گردانہ اور انتہا پسندانہ اقدامات کی مکمل طور پر مخالفت کرتی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے حملے جان بوجھ کر پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے اور عوام کی حفاظت کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کی کہ ملک میں امن اور استحکام قائم رہے۔
سعودی حکومت نے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کی زندگیوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت اور عوام پاکستان کے ساتھ دلی ہمدردی کا پیغام بھی پیش کیا گیا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک بھائی ملک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایسے عناصر کے خلاف یکجہتی ضروری ہے جو خوف اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کو خاص طور پر خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں وقفے وقفے سے دہشت گردانہ حملوں کا سامنا ہے، جہاں سیکیورٹی فورسز کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے حملوں کی مذمت دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف تشویش کی عکاسی کرتی ہے اور انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔
سعودی عرب کے اس موقف سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ سفارتی اور حکمت عملی تعلقات بھی اجاگر ہوتے ہیں، جو باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہیں۔ حملے کی سخت مذمت اور مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے ذریعے سعودی عرب نے امن، علاقائی استحکام اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا ہے۔
