بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے شامی عوام کے ساتھ بھرپور حمایت کا مظاہرہ کیا۔ اقوام متحدہ میں شام کے مستقل نمائندے، قُصَی الضحاک، ایک انٹرویو میں بتایا کہ عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، نے شامی عوام کے لیے اپنی یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔
بشار الاسد کا اقتدار اس وقت ختم ہوا جب حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادیوں نے تیز ترین فوجی کارروائی کے ذریعے دمشق کو فتح کیا۔ اس تاریخی پیش رفت نے بشار الاسد کے خاندان کے پچاس سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا۔ نئی قیادت نے مذہبی اقلیتوں کو یقین دلایا کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی۔
اقوام متحدہ میں شام کے پرچم کی تبدیلی کے حوالے سے الضحاک نے واضح کیا کہ یہ ایک باضابطہ عمل ہے جس کے لیے شامی حکومت کی منظوری ضروری ہے۔ اس دوران، دنیا بھر میں شامی سفارت خانے وزیر اعظم محمد البشیر کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے شام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں۔
شامی عوام نے اس طویل عرصے کی آمریت کے خاتمے پر دنیا بھر میں خوشی کا اظہار کیا، جس میں اختلاف رائے رکھنے والوں کے لیے جیل یا موت کی سزا عام تھی۔ آج، شام کے نمائندے اقوام متحدہ میں یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک ایک تاریخی تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے، جہاں نئی حکومت استحکام اور ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔
وزیر اعظم محمد البشیر نے ہدایت کی ہے کہ شامی سفارت کار دنیا بھر میں شام کے مفادات کا دفاع کریں اور اس نئی حکومت کے مقاصد کو عالمی سطح پر اجاگر کریں، تاکہ شام کے عوام کے لیے ایک بہتر مستقبل یقینی بنایا جا سکے